اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
نمازمیں مشغول تھا،اس کی تلاوتِ قرآن کی آوازہماری سماعت سے ٹکرارہی تھی،لیکن ہم ٹھیک طرح اسے پہچان نہیں سکے(۱)رسول اللہﷺاس شخص کے قریب جاکرکھڑے ہوگئے، اوربڑے ہی انہماک کے ساتھ کچھ دیروہیں کھڑے ہوئے اس شخص کی تلاوت سنتے رہے، پھرہماری طرف متوجہ ہوتے ہوئے آپؐ نے ارشادفرمایا: (مَن سَرَّہٗ أن یَقرَأ القُرآنَ رَطْباً کَمَا نَزَلَ ، فَلیَقرَأہُ عَلَیٰ قِرَائَ ۃِ ابنِ أمِّ عَبْد) (۲) یعنی’’جس کسی کی یہ خواہش ہوکہ وہ قرآن کواس طرح پڑھے جس طرح وہ تازہ تازہ نازل ہوا…(۳) اسے چاہئے کہ وہ ابن اُم عبد[یعنی عبداللہ بن مسعودؓ]کی طرح پڑھے‘‘۔ مقصدیہ کہ رسول اللہ ﷺکی طرف سے اس شخص(حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) کیلئے یہ بہت بڑی گواہی اورتصدیق تھی کہ ان کی تلاوتِ قرآن بہت ہی درست ترین ہے۔ اس کے بعدحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’نمازسے فراغت کے بعد عبداللہ بن مسعوداسی جگہ بیٹھے ہوئے دیرتک دعاء میں مشغول رہے،جبکہ اس دوران رسول اللہﷺانتہائی شفقت بھرے اندازمیں مسلسل ان کی جانب دیکھتے رہے ،اوراپنی زبانِ مبارک سے یوں کہتے رہے : سَلْ تُعْطَہ… سَلْ تُعْطَہ یعنی’’مانگتے جاؤ،تمہیں عطاء کیاجائے گا…مانگتے جاؤ،تمہیں عطاء کیاجائے گا‘‘۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’میں نے دل میں سوچاکہ جب صبح ہوگی تومیں عبداللہ بن مسعودکے پاس جاؤں گا،اورانہیں یہ سب تفصیل بتاؤں گاکہ گذشتہ رات جب آپ مسجدمیں نمازمیں مشغول تھے ،تب رسول اللہﷺ نے آپ کی تلاوت سنی،اورپھر ------------------------------ (۱) شایدرات کاوقت ہوگا،اس لئے ابتداء میں نہیں پہچان سکے ،البتہ بعدمیں پہچان لیا۔ (۲) صحیح ابن حبان[۷۰۶۷] (۳) یعنی قرآن کویوں بالکل درست طریقے سے پڑھے کہ جس طرح اللہ کی طرف سے نازل ہواہے۔