اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
تب وہ سبھی بگڑگئے…اپنی اصلیت پرآگئے…اورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کوخوب جی بھرکرزدوکوب کرتے رہے ،اورناحق ظلم وتشددکانشانہ بناتے رہے… آخرعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اپنی یہ حالت لئے ہوئے وہاں سے واپس روانہ ہوئے اوراپنے انہی مسلمان ساتھیوں کے پاس پہنچے …انہوں نے جب ان کی یہ کیفیت دیکھی کہ جگہ جگہ سے خون بہہ رہاہے…تب وہ برجستہ بولے کہ ’’ہمیں اسی چیزکااندیشہ تھا،اوراسی لئے ہم نے تمہیں منع بھی کیاتھا…‘‘ اس پرعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے جواب دیا’’میری یہ جوبھی حالت ہے…اس کے باوجودمیں اس بات پربہت خوش ہوں کہ آج میں ان لوگوں کے سامنے اللہ کاکلام پڑھ کرآیاہوں‘‘ اسی کیفیت میں مکہ میں وقت گذرتارہا…اورپھرنبوت کے تیرہویں سال ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہونے پردیگرتمام مسلمانوں کی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بھی ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے۔ دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دورسے ہی قرآن کریم کے ساتھ ان کاجوبہت گہرا اور والہانہ تعلق تھا…اب یہاں مدینہ میں بھی …بلکہ اس کے بعدبھی ہمیشہ ہی ان کی یہی کیفیت ٗاورقرآن کریم کے ساتھ یہی جذباتی لگاؤاسی طرح برقراررہا… حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺایک بارابوبکرصدیق ر ضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی اہم اورنازک معاملے میں گفت وشنیداورمشاورت میں مشغول تھے، اتفاق سے قریب ہی میں بھی موجودتھا،پھرآپؐ وہاں سے اٹھ کرمسجدکی طرف روانہ ہوگئے، ہم دونوں بھی ساتھ ہی چل دئیے،مسجدمیں پہنچنے کے بعدہم نے وہاں ایک شخص کودیکھا،جو