اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ودولت ضائع نہیں کرتا…‘‘ لیکن حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کااپناایک نظریہ تھا،اورمخصوص زاویۂ نگاہ تھا… دراصل جس کسی کی ذمہ داری جس قدربڑی ہوتی ہے …اسی قدروہ محتاط بھی زیادہ ہواکرتاہے…ظاہرہے کہ امیرالمؤمنین اورخلیفۂ وقت ہونے کی حیثیت سے حضرت عمرؓ کی ذمہ داری بہت بڑی تھی…اس لئے ان کے اندازِفکرکامخصوص معیارتھا،بالخصوص بیت المال کے حوالے سے …شایدانہیں یہ اندیشہ تھاکہ اگرصہیب کوکوئی ذمہ داری سونپی گئی اور بڑامنصب ان کے حوالے کردیاگیا…توشایدیہ (خلوصِ نیت سے ہی سہی) اپنے مزاج کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے سبھی کچھ لٹادیں گے…اس لئے حضرت عمررضی اللہ عنہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی خدادادصلاحیتوںسے اس قدرمتأثرہونے کے باوجود ٗ اوردونوں میں اتنی قربتوں اورمحبتوں کے باوجود…کوئی سرکاری عہدہ ان کے حوالے کرنے سے کتراتے تھے۔ البتہ اس کے باوجودحضرت عمرؓ ان کی قدرومنزلت سے خوب آگاہ تھے،اوران دونوں جلیل القدرشخصیات میں باہمی محبتوں اورعزت واحترام کارشتہ بہت ہی مضبوط تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ جب ایک روزمسجدِنبوی میں نمازِفجرکی امامت کے دوران ابولولوفیروزنامی مجوسی غلام کی طرف سے قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوگئے تھے…اورچاردن موت وزیست کی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعدآخربتاریخ یکم محرم ۲۴ھشہید ہوگئے تھے…اس موقع پرزخمی ہونے کے بعداورشہادت کے درمیان کے عرصہ میں خودحضرت عمرؓنے یہ خاص تاکیدفرمائی تھی کہ میرے بعدکوئی نیاخلیفۃ المسلمین منتخب ہونے تک صہیب نمازپڑھائیں…چنانچہ اس تاکیدکے مطابق اُن دنوں حضرت