اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
کیلئے میںاللہ اوراس کے رسول کانام چھوڑآیاہوں‘‘۔ تب میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ’’آج کے بعدمیں کبھی ابوبکرسے سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کروں گا…‘‘(۱) ٭…سن ۹ہجری میں باقاعدہ اسلامی عبادت کے طورپر جب فرضیتِ حج کاحکم نازل ہوا تورسول اللہﷺنے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کواپنے نائب کی حیثیت سے ’’امیرالحجاج‘‘ مقررفرمایا،اورتمام مسلمانوں نے دینِ اسلام کے اہم ترین رکن کی حیثیت سے تاریخ میں پہلی بارفریضۂ حج حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں اداکیا۔ ٭…رسول اللہﷺاس جہانِ فانی سے رحلت سے قبل آخری ایام میں جب ۷/ربیع الاول بروزبدھ مسجدمیںآخری باراپنے منبرپرجلوہ افروزہوئے تھے اورمتعددنصیحتیںاور وصیتیں فرمائی تھیں، تب اسی موقع پرآپؐنے وہاں موجودافرادکومخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد بھی فرمایاتھا :(اِنَّ عَبْداً خَیَّرَہُ اللّہُ أن یُؤتِیَہٗ مِن زَھرَۃِ الدُّنیَا مَا شَائَ ، وَبَیْنَ مَا عِندَہٗ ، فَاختَارَ مَا عِندَہٗ) یعنی’’اللہ کاایک بندہ ہے،جسے اللہ نے اس بات کااختیاردیا ہے کہ اگروہ چاہے تو اللہ اسے دنیاوی زندگی کی خوب رونقیںعطاء فرمائے، اور اگر وہ چاہے تواب اللہ کے پاس موجودنعمتوں میں چلاآئے…لہٰذا اس بندے نے اللہ کے پاس موجودنعمتوں کوپسندکرلیاہے‘‘۔(۲) اس حدیث کے راوی حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات سن کرحضرت ابوبکرؓ رونے لگے،اوربیساختہ یوں کہنے لگے: فَدَینَاکَ بِآبَائِنَا وَأمّھَاتِنَا یَا رََسُولَ اللّہ)یعنی’’اے اللہ کے رسول! آپ پرہمارے ماں باپ قربان…‘‘ ------------------------------ (۱) یہ واقعہ سن ۹ہجری میں غزوۂ تبوک کیلئے تیاری کے موقع پرپیش آیاتھا۔ (۲)یعنی اس دنیامیں مزیدزندگی بسرکرنے کی بجائے اللہ کے پاس چلے جانے کوپسندکرلیاہے