اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ان آیات میں اولاً تویہ تنبیہ کی گئی کہ اگرانتقام لیناہوتومحض اتناہی لوکہ جتناتم پرظلم کیاگیا ہے، اس سے زیادہ ہرگزنہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ اگربالکل ہی انتقام نہ لو ٗ صبرسے کام لو ٗ تویہ بہت بہترہے۔اس کے بعد یہ تلقین کی گئی کہ صبرکادامن تھامے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ سے صبرکی توفیق طلب کی جائے،اس کی طرف سے توفیق شاملِ حال ہوگی توصبرنصیب ہوگا،ورنہ نہیں…اورپھرخالقِ ارض وسماء کی طرف سے ہمیشہ کیلئے یہ نسخہ بتادیاگیاکہ اللہ کی معیت ونصرت کی طلب وآرزوہے تو’’اللہ کاخوف‘‘ نیز’’اللہ کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک‘‘کاراستہ اختیارکرو…تب جاکرتمہیں اللہ کی معیت ونصرت نصیب ہوسکے گی،اورجب اللہ کی معیت ونصرت جیسی عظیم ترین نعمت نصیب ہوجائے گی …توپھرغم کیسا…؟پھرانتقام کی آگ میںسلگناکیسا…؟ پھرتوکسی ’’انتقام‘‘یاکسی ’’مُثلہ‘‘کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی… چنانچہ ان آیات میں خالقِ کائنات کی طرف سے ان توجیہات اورپاکیزہ تعلیمات کے نزول کے بعدرسول اللہ ﷺ نے اپنی اس قسم(یعنی مشرکینِ مکہ کامُثلہ کرنے کی قسم) کاکفارہ اداکیا… اورپھرفتحِ مکہ کے تاریخی موقع پروہی تمام بڑے بڑے مجرم…جنہوں نے غزوۂ اُحدکے موقع پریہ اتنابڑاظلم کیاتھا…ناک ٗ کان کاٹے ٗ آنکھیں نکالیں ٗ سینہ چاک کیا ٗ کلیجہ نکالا ٗ اورچبانے کی کوشش کی …اورمحض یہی نہیں…بلکہ اس سے قبل تیرہ سالہ مکی دورمیں یہی لوگ مسلمانوں پرظلم وستم کے پہاڑتوڑتے رہے…آپﷺنہایت محبت ٗ نرمی ٗ اور شفقت کے ساتھ انہیں دینِ برحق کی طرف دعوت دیتے رہے…آپﷺتیرہ سال مسلسل ان پروعظ ونصیحت کے پھول برساتے رہے…جبکہ جواب میں یہ لوگ ہمیشہ پتھر