اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
میں حمزہ کوقتل کرڈالو…تومیں تمہیں بطورِانعام آزادکردوں گا‘‘۔ ظاہرہے کہ وحشی کیلئے اس سے بڑالالچ اورکیاہوسکتاتھا…لہٰذامحض حضرت حمزہ ؓکوقتل کرنے کی خاطر…اوراس کے عوض اپنی آزادی کے لالچ میں مشرکینِ مکہ کے لشکرکے ہمراہ وہ بھی مدینہ کی جانب روانہ ہوگیا،لشکرمسلسل مدینہ کی جانب پیش قدمی کرتارہا،اس دوران وحشی روزانہ بڑے ہی اہتمام سے اپنانیزہ تیزکیاکرتا…اس کاتیزدھاراورچمکدارنیزہ دھوپ میں خوب چمکتاہوادورسے ہی نظرآیاکرتاتھا،جسے دیکھ کربڑے بڑے سردارانِ قریش اس کی خوب حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے… اسی کیفیت میں وحشی مشرکینِ مکہ کے لشکرکے ہمراہ وہاں پہنچاتھا،اوراُحدکے میدان میں اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کوتلاش کیااورپھرمسلسل انہی پرنگاہ مرکوزکئے رکھی، اور مسلسل ان کے تعاقب میں رہا…حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس موقع پرجس بے جگری سے لڑرہے تھے اس پریہ وحشی باربارلرزاٹھتا،اس کے سراپاپرعجیب ساخوف طاری ہونے لگتا، اتنی ہمت وہ کہاں سے لاتاکہ ان کے قریب جاکروارکرے، اوردورسے وارکرنے کاکوئی مناسب موقع نہیں مل رہاتھا…اسی دوران مشرکینِ مکہ کے ناموربہادروں میں سے سِباع بن عبدالعُزیٰ نامی ایک شخص کی نظرحضرت حمزہؓ پرپڑی ، اس نے جب انہیں دونوں ہاتھوں میں تلوارلئے ہوئے اس قدربہادری وبے جگری کے ساتھ لڑتے دیکھاتوانہیں مخاطب کرتے ہوئے چلایا: بَارِزنِي یا حَمزۃ… یعنی’’اے حمزہ ذرہ مجھ سے مقابلہ کرو…‘‘ تب حضرت حمزہؓ برق رفتاری کے ساتھ اس کی جانب لپکے ،اور اس پربھرپور وار کیا ،اگلے ہی لمحے تکبروغرورکاوہ پتلازمین بوس ہوگیا،تاہم ابھی تک حضرت حمزہؓ اسی کی طرف متوجہ تھے،اُس وقت ان کی پشت ایک درخت کی جانب تھی جس کی آڑمیں وحشی چھپا