اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
سردارانِ قریش اور نامی گرامی شہسوارحضرت حمزہؓ کے ہاتھوں مارے گئے تھے، لہٰذاان کے رشتے داروں میں سے بہت سے جنگجواب اُحدکے موقع پرمحض حضرت حمزہؓ سے اپناانتقام لینے کی غرض سے وہاں پہنچے تھے،اورانہوں نے بطورِخاص بس انہی پرنظررکھی ہوئی تھی۔ ایسے ہی ایک بڑاسردارطُعیمہ بن عُدی جو’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پرحضرت حمزہؓ کے ہاتھوں ماراگیاتھا،اس کی موت کے بعدمکہ میںاس کا بھتیجا مسلسل انتقام کی آگ میں جل رہاتھا، اوراسے کسی صورت سکون نہیں مل رہاتھا…اس کاایک حبشی غلام تھا،جس کانام تھا’’وحشی بن حرب‘‘جسے دورسے ہی نیزہ پھینک کرشکارکرنے میں بڑی مہارت حاصل تھی اس کانشانہ کبھی خطانہیں جاتاتھا(۱) جنگِ اُحدسے قبل مشرکینِ مکہ جن دنوں مسلمانوں کے خلاف خوب زوروشورکے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھے ، ان کاجنگی جنون جب عروج پرتھا…ایسے میں ایک روز ’’وحشی‘‘کے آقانے اسے مخاطب کرتے ہوئے یوں کہا’’کیاتمہیں آزادی کی تمنا ہے؟‘‘ اپنے آقاکی زبانی یہ بات سن کروحشی حیرت زدہ رہ گیا،اسے اپنے کانوں پریقین ہی نہیں آرہاتھا…تب وہ اپنے آقاکی جانب معنیٰ خیزنگاہوں سے دیکھنے لگا،گویاوہ اس بارے میں مزیدوضاحت چاہتاہو… تب اس کے آقانے اس کی جانب بغوردیکھتے ہوئے یوں کہا’’دیکھووحشی!مسلمانوں کے خلاف جنگ کی غرض سے ہم لوگ بس چندہی دنوں میں مدینہ کی جانب کوچ کرنے والے ہیں، اگرتم بھی ہمارے ساتھ چلو،اوروہاںمیدانِ جنگ ------------------------------ (۱) اُس دورمیں حبشہ کے تمام باشندوں کی یہی کیفیت تھی کہ اپنے شکارکی جانب دورسے نیزہ پھینک کراسے شکارکرنے میں انہیں بہت زیادہ مہارت حاصل تھی ،غالباًاس کی وجہ یہ ہوگی کہ حبشہ میں گھنے جنگل اوران میں پائے جانے والے جنگلی درندوں کی بہتات تھی ، انہیں مارنے کیلئے ان کے قریب جاناتوممکن نہیں تھا،لہٰذایہ لوگ دورسے ہی نیزہ پھینک کرانہیں ماراکرتے تھے، چونکہ یہ ان کی مجبوری تھی،لہٰذایہ لوگ اس کام میں بہت ماہرتھے۔