اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
جس کامضمون یہ تھا: اِنِّي أبْعَثُ اِلیکُم عَمّار بن یَاسِر أمِیراً ، و عَبدَاللّہ بن مَسعُود مُعَلِّماً وَ وَزِیراً ، وَاِنّھُمَا مِنَ النُّجَبَائِ ، مِن أصحَابِ الرّسُولِ ﷺ وَمِن أصْحَابِ بَدر ۔ یعنی’’میں تم لوگوںکی طرف عماربن یاسرکوتمہارے فرمانرواکی حیثیت سے ٗ جبکہ عبداللہ بن مسعودکوتمہارے لئے معلم ومربی ٗ نیزعماربن یاسرکیلئے وزیر ومددگارکی حیثیت سے بھیج رہاہوں ،یہ دونوں حضرات انتہائی شریف ونجیب قسم کے انسان ہیں، رسول اللہﷺکے صحابۂ کرام میں سے ہیں ٗ نیزیہ دونوں ’’غزوہ ٔبدر‘‘میں شرکت کرنے والے خوش نصیبوں میں سے ہیں‘‘۔ ٭حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ کوفہ میں طویل عرصہ تک ’’فرمانروا‘‘کی حیثیت سے مقیم رہے،اس دوران ان کے طرزِزندگی اوربودوباش میں کوئی فرق نہیں آیا،وہی انتہائی سادہ طورطریقے ،اورعجزوانکسارسے بھرپورزندگی…گھرکیلئے سودااورسامان وغیرہ لینے کیلئے خودہی بازارجاتے،عام لوگوں کی طرح وہاں گھومتے پھرتے،ضرورت کی اشیاء خریدتے،اورپھرخودہی اپناسامان اٹھائے ہوئے گھرکی طرف چل دیتے ، حتیٰ کہ اناج کی بوری بھی خودہی اپنی کمرپرلادکرلاتے،کوئی شان وشوکت نہیں تھی،کوئی ’’ہوشیار ٗخبردار‘‘کی صدائیں بلندنہیں ہوتی تھیں، کوئی ’’ہٹو …بچو‘‘کی آوازیں نہیں آتی تھیں۔ انہی دنوں بازارمیں انہوں نے ایک شخص کوکسی بات پرکچھ تنبیہ کی،جس پروہ کہنے لگا : یَا أجْدَعَ الأذُن…یعنی’’اے کن کٹے آدمی…‘‘مقصدیہ کہ وہ ان کی بات سننے اوران کی تنبیہ کوقبول کرنے کی بجائے اُلٹا یوں تمسخرکرنے لگااوران الفاظ میں انہیں طعنہ دیا۔ لیکن حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ نے اس شہر(کوفہ) کافرمانرواہونے کے باوجوداپنی رعیت کے اس عام انسان کی طرف سے یہ طعنہ سننے کے بعدکسی غیظ وغضب یاناگواری کا