اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں چہارسواسلامی فتوحات کاسلسلہ بہت زیادہ وسعت اختیارکرچکاتھا،تب حضرت عمرؓ نے سپہ سالارِاعلیٰ حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کومفتوحہ علاقوں میں نئے شہرآبادکرنے کاحکم دیا،چنانچہ انہی دنوں( ۱۷ھمیں) حضرت سعدؓ نے دریائے فرات کے کنارے ایک نیاشہربسایاجوکہ کوفہ کے نام سے معروف ہوا،اورپھرآئندہ چل کریہ شہرعلمی ٗ ادبی ٗ عسکری ٗ سیاسی ٗ وثقافتی ٗ غرضیکہ ہرلحاظ سے بہت زیادہ اہمیت اختیارکرگیا۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے مزاج میں یہ بات شامل تھی کہ وہ خداداد بصیرت ٗ فراست ٗ اوردوراندیشی کی وجہ سے اہم اورحساس قسم کے مناصب کیلئے ذمہ دارافرادکی تعیین وتقرری کے معاملہ میں ہمیشہ بہت زیادہ احتیاط اورباریک بینی سے کام لیاکرتے تھے، چنانچہ جب یہ نیاشہر(یعنی کوفہ)بسایاگیاتواس کے والی (گورنر ٗیافرمانروا)کے تقررکیلئے ان کی نظرِانتخاب حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ پرپڑی،اورتب انہوں نے اس نئے آباد کردہ شہر(کوفہ)کے اولین فرمانرواکی حیثیت سے حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ کی تقرری کی۔ نیزاسی موقع پرہی حضرت عمرؓنے اہالیانِ کوفہ کی دینی تعلیم وتربیت اوررہنمائی کی غرض سے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کومقررفرمایا،ساتھ ہی انہیں یہ تاکیدبھی کی کہ وہ تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ بوقتِ ضرورت انتظامی امورمیں حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاون بھی کرتے رہیں،مشاورت کے فرائض انجام دیتے رہیں…اورپھر ان دونوں انتہائی جلیل القدرشخصیات کو کوفہ پہنچنے کی تاکیدفرمائی۔ اس موقع پرحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہالیانِ کوفہ کے نام ایک خط بھی تحریرفرمایا،