اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
چھوڑچھاڑکرخالی ہاتھ نئی منزل…یعنی مدینہ جاپہنچے…جہاں مہاجرین وانصارکوباہم ’’رشتۂ مؤاخاۃ‘‘میں پروتے وقت رسول اللہﷺنے انہیں انصارِمدینہ میں سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کابھائی بنایا۔ (۱) ٭ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدمحض اگلے سال ہی جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگیں مسلط کرنے کاسلسلہ شروع ہوا…جس کے نتیجے میں حق وباطل کے درمیان پیش آنے والے اولین معرکہ یعنی غزوۂ بدرسے چندروزقبل رسول اللہ ﷺنے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو مشرکینِ مکہ کے لشکرکی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی غرض سے مدینہ شہرسے باہرکہیں بھیج رکھاتھا…اوراسی دوران غزوۂ بدرکااہم ترین واقعہ پیش آگیا…لہٰذاحضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ غزوۂ بدرمیں شرکت نہیں کرسکے تھے … البتہ اس کے باوجودآپؐنے انہیں اجروثواب کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔ غزوۂ بدرکے بعدرسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ٗ ہرغزوے کے موقع پرحضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی زیرِقیادت حاضراورشریک رہے اوراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرہمیشہ بے مثال شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے رہے… بالخصوص غزوۂ بدرکے بعدمحض اگلے ہی سال یعنی سن تین ہجری میں غزوۂ اُحدکے موقع پران کاکرداریقیناتاریخِ اسلام کے ایک ناقابلِ فراموش باب کی حیثیت رکھتاہے… غزوۂ اُحدکے موقع پرکیفیت یہ ہوئی کہ ابتداء میں مسلمان یہ جنگ تقریباًجیت ہی چکے تھے، لیکن پھراپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے ان کی یہ فتح شکست میں تبدیل ہوگئی…تب مسلمان ------------------------------ (۱) حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی خاص بات یہ ہے کہ بعدمیں غزوہ ٔ تبوک کے موقع پران کیلئے ’’قبولیتِ توبہ‘‘کا واقعہ وجہِ شہرت بن گیا۔سورہ ’’توبہ‘‘کایہ نام اسی واقعے کی نسبت سے ہے۔ملاحظہ ہو[۴۸۳۔۵۰۸]۔