اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
فارس کی جانب روانگی کافیصلہ کیا۔ مدینہ میں موجوداکابرصحابہ کوجب حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ وہ خوداس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے جاناچاہتے ہیں…تب وہ سب بڑی تشویش میں مبتلاہوگئے،ان میں سے متعددحضرات نے حضرت عمرؓسے ملاقات کی ،اورانہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ’’آپ کاخودمدینہ سے اس قدردور…سلطنتِ فارس کے خلاف جنگ کی غرض سے جاناکسی صورت مناسب نہیں ہے‘‘۔ لیکن حضرت عمرؓ نے کسی کی بات نہیں سنی اوراپنے فیصلے پرقائم رہے،بلکہ مزیدیہ کہ اس چیزکاباقاعدہ اعلان کرتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کواپنی اس غیرموجودگی کے دوران مدینہ میں اپنانائب بھی مقررکردیا۔ دوسری جانب حضرات اکابرصحابہ بدستوراپنی اسی رائے پرقائم رہے، اوربڑی تشویش میں مبتلارہے ،اس بارے میں ان میں باہمی صلاح مشورے کاسلسلہ چلتارہا،اورانہوں نے یہ طے کیاکہ ہم امیرالمؤمنین (عمربن خطاب رضی اللہ عنہ )کوکسی صورت اتنی دورنہیں جانے دیں گے،آخرانہوں نے طے کیاکہ حضرت عمرؓ کوقائل کرنے کیلئے کوئی ایساشخص تلاش کیاجائے جس کی بات کووہ ردنہ کرسکیں،اورپھرباہم غوروفکرکے بعدان تمام اکابرصحابۂ کرام نے سوچاکہ یہ کام عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے ذمے لگایاجائے، ان کی بات کوحضرت عمرؓردنہیں کریں گے۔چنانچہ یہ کام عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ذمے لگایا گیا،جس پرانہوں نے حضرت عمرؓ سے اس بارے میں بات کی اورتمام اکابرصحابہ کے موقف کی شدیدتائیدکرتے ہوئے وہی مطالبہ دہرایاکہ آپ خوداس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے دارالخلافہ (مدینہ منورہ)سے اتنی دورکسی صورت نہیں جائیں گے…‘‘۔