اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اورتب واقعی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بات کونہ ٹال سکے،اوران کامشورہ منظورکرتے ہوئے اپنافیصلہ تبدیل کرلیا،البتہ شرط یہ رکھی کہ’’ مجھے اس مقصدکیلئے کوئی مناسب ترین شخص مہیاکیاجائے،جویہ کام عین میری مرضی کے مطابق انجام دے سکے…‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب تمام اکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کواس صورتِ حال سے مطلع کیا،تووہ سب خوش بھی ہوئے کہ حضرت عمرؓ نے اپنافیصلہ تبدیل کرلیاہے، لیکن ساتھ ہی اب وہ سب اس نئی پریشانی کاشکارہوگئے، کہ کوئی مناسب آدمی تلاش کیاجائے، ظاہرہے کہ یہ بہت ہی بڑی ذمہ داری تھی،اورانتہائی خطرناک کام تھا،سلطنتِ فارس کے خلاف باقاعدہ بڑی جنگ کی غرض سے روانہ ہونے والے اس اولین لشکرکی سپہ سالاری،اس مقصدکیلئے بے انتہاء جرأت وشجاعت ٗ استقامت ٗ تجربہ ٗ فنونِ حرب میں بے مثال مہارت ٗ صلاحیت ٗ بہت بڑی ہمت ،نیزبہت بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ مزیدپریشانی یہ کہ اس مقصدکیلئے اگرکوئی خودکوپیش کرے …یا…کسی دوسرے کانام تجویزکرے،بہرصورت اگرخدانخواستہ لشکرکووہاں پہنچنے کے بعدناکامی وہزیمت کاسامنا کرناپڑا،یااورکوئی بھی مصیبت کھڑی ہوگئی، توذمے دارکون ہوگا…؟؟یہی وجہ تھی کہ مدینہ میں تمام اکابرصحابہ اب انتہائی شش وپنج کی کیفیت میں پھنس کررہ گئے تھے… دوچارروزاسی کیفیت میں گذرگئے ،کسی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا،حضرت عمرؓ انتظارہی کرتے رہے،آخرایک روزانہوں نے اکابرصحابۂ کرام کومخاطب کرتے ہوئے خودہی فرمایا’’میں نے وہ مناسب ترین شخص تلاش کرلیاہے…آپ سب دیکھتے رہئے گا…کہ