اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
یااللہ!تومیرے اصحاب کی ہجرت کوجاری(یعنی پورا)فرمادے،اورانہیں ان کی ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹانا،ہاں البتہ قابلِ رحم توسعدبن خولہ ہیں،اُن کیلئے رسول اللہﷺ دعائے رحمت فرمایاکرتے تھے کیونکہ وہ مکہ میں ہی فوت ہوگئے تھے‘‘(یعنی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت نہیں کرسکے تھے)۔ ٭…اس حدیث سے درجِ ذیل فوائدسمجھ میں آتے ہیں: (۱)…رسول اللہﷺکاحسنِ اخلاق اوراپنے اصحاب کی عیادت…مزیدیہ کہ اس مقصدکیلئے آپؐکاخودچل کرجانا۔ (۲)…مریض کی عیادت کی فضیلت۔ (۳)…زندگی کے ہرشعبے میں ٗ حتیٰ کہ صدقہ وخیرات اورانفاق فی سبیل اللہ جیسے مقدس ترین کام میں بھی ’’اعتدال‘‘کوملحوظ رکھنا۔ (۴)…وارثوں کے حق کی اہمیت ٗ نیزان کیلئے فکراورجستجو ٗاورانہیں دوسروں کی محتاجی ومفلسی سے بچانے کی ضرورت…نیزوارثوں کے حق کی حفاظت کی غرض سے ’’ثُلُث‘‘ یعنی محض ایک تہائی مال صدقہ یاوقف کرنے پراکتفاء…اوراس سے زیادہ صدقہ کرنے کی ممانعت۔(۱) (۵)… اہلِ علم سے مشاور ت کی ضرورت واہمیت ، جس طرح حضرت سعدبن ابی وقاص ------------------------------ (۱) بلکہ اہلِ علم کے بقول وارثوں کے ہوتے ہوئے ’’ثلث‘‘یعنی ایک تہائی صدقہ یاوقف کردیناخلافِ اولیٰ ہے،کیونکہ رسول اللہﷺنے اس موقع پرسعدبن ابی وقاص ؓ کواس کی اجازت تودی(جبکہ اُس وقت سعدؓ کی وارث محض ایک ہی بیٹی تھی)لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ’’الثلث کثیر،یعنی ٹھیک ہے ایک تہائی تم صدقہ کرسکتے ہومگریہ بھی بہت زیادہ ہے‘‘لہٰذااہلِ علم کے بقول ثلث کی اجازت توہے،مگریہ خلافِ اولیٰ ہے،جبکہ رُبُع یعنی چوتھائی حصہ اولیٰ یعنی بہترہے۔ ملاحظہ ہو:شرح ریاض الصالحین ۔از: محمدبن عثیمین:ج:۱ صفحہ[۴۱۔۶۰] ۔