اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
اس موقع پررسول اللہﷺ نے اپنے صحابی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کواس دعائے خیروبرکت سے جونوازا…اورپھراس مبارک دعاء کاجواثرظاہرہوا…اس بارے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فَأقبَلَتِ الدُّنیَا عَلَيَّ ، حَتَّیٰ رَأَیتُنِي لَو رَفَعتُ حَجَراً لَتَوَقَّعتُ أن أجِدَ تَحتَہٗ ذَھَباً أو فِضَّۃً ۔ یعنی’’ اس دعائے خیرکے بعددنیاوی نعمتیں خودبخودمیرے پاس آتی ہی چلی گئیں،یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگاکہ اگرمیں کوئی پتھربھی اٹھاؤںگا تواس کے نیچے سے میرے لئے سونا یا چاندی برآمدہوگا‘‘۔ ٭ہجرتِ مدینہ کے بعدجلدہی جب غزوات کی نوبت آئی توحق وباطل کے درمیاں پہلی یادگارجنگ یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پر، اورپھردوسری جنگ ’’اُحد‘‘کے موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی زیرِقیادت شریک ٗبلکہ پیش پیش رہے، اورشجاعت وبہادری کے خوب جوہردکھاتے رہے،بالخصوص ’’غزوۂ اُحد‘‘کے موقع پرجب مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے،ہرطرف افراتفری پھیل گئی، تب اس نازک ترین صورتِ حال میں مٹھی بھرچندافرادجورسول اللہﷺ کے ہمراہ موجود تھے ،انہی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، اس موقع پرانہوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں،بہت چوٹیں کھائیں،تلواروں اورتیروں کے بہت سے زخم لگے،لیکن ان کی بہادری اورثابت قدمی میں کوئی فرق نہ آیا، پائے استقامت میں ذرہ برابرلغزش نہیں آئی…اورپھرجنگ کے اختتام پرجب میدانِ جنگ سے نکلے توکیفیت یہ تھی کہ جسم کے ------------------------------ باقی ازحاشیہ صفحہ گذشتہ: کوئی دھوم دھڑکانہیں ہے،فضول خرچی اورجھوٹی شان وشوکت کاوہاں کوئی تصورنہیں ہے…رسول اللہﷺتک کوبھی خبرہی نہوسکی…لیکن کوئی شکوہ نہیں،کوئی رنجش نہیں…یقینااس سادگی میں امت کیلئے بڑالمحۂ فکریہ ہے۔