اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
یقیناوہ بات نہیں ہوگی جوخودبھائیوں میں آپس میں تھی…قدرت کایہی نظام ہے… بعینہٖ اسی طرح خلیفۂ چہارم سے قبل گذشتہ خلفاء ٗ بالخصوص پہلے دوخلفاء ٗ کے دورمیں صورتِ حال یہ تھی کہ ان کی رعیت میں غالب اکثریت اکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی،جوان کے ہم خیال اورہم مزاج تھے،ایمان واخلاص ٗ زہدوتقویٰ ٗ للہیت وفنائیت ٗ فکرِ آخرت ٗ امانت ودیانت ٗ حق گوئی وراست بازی ٗ دنیاکے حقیرمال ومتاع سے بے رغبتی ٗ غرضیکہ ہرلحاظ سے ان سب کامعیارایک ہی جیساتھا…ان سبھی کی تربیت خودخاتم الأنبیاء واشرف المرسلین نے فرمائی تھی…ان سبھی نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کادین براہِ راست خوداللہ کے رسول ﷺ سے ہی سیکھاتھا…آپؐ کی صحبت ومعیت ٗ کسبِ فیض کے وہ مبارک سلسلے ٗ اورآپؐ کاوہ فیضانِ نظر…یہی وہ بے مثال شرف تھا…اوریہی وہ اعلیٰ ترین اعزاز تھا… جس نے انہیں تمام بنی نوعِ انسان میں یکتائے روزگاربنادیاتھا…لہٰذاان گذشتہ (دو) خلفاء کواپنے ہی ان مخلص دوستوں اورساتھیوں پرمشتمل اپنی اس رعیت کے ساتھ مفاہمت اورمعاملات طے کرنے میں …نیزانتظامی معاملات چلانے میں کسی دقت کا … کسی سازش کا…کسی شورش کا…سامنانہیں کرناپڑا… جبکہ اس کے برعکس خلیفۂ چہارم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جب منصبِ خلافت سنبھالاتودنیابدلی ہوئی تھی…ماحول بدلاہواتھا…لوگوں کے مزاج بدلے ہوئے تھے…اورپھربالخصوص مدینہ سے بصرہ اورپھرکوفہ منتقل ہوجانے کے بعدتواس ناگوار تبدیلی میں مزیدشدت آچکی تھی،مدینہ میں تواب بھی کافی تعدادمیں اہلِ خیرموجودتھے… مبارک ہستیاں بکثرت نظرآتی تھیں…لیکن سینکڑوں میل کی مسافت پرواقع اس نئی جگہ پر توہرطرف ناآشناہی نظرآتے تھے،نئی نئی شکلیں،نامانوس اوراجنبی چہرے،جن کے مزاج