اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
سورج کے ساتھ ہی ایک نیافتنہ بھی طلوع ہوجاتا۔ فتنوںاورسازشوں سے بھرپوراس گھٹن زدہ ماحول میں ایک اہم حقیقت یہ تھی کہ ان تمامترمشکلات کی اصل آماجگاہ مدینہ سے کافی دوردرازکے علاقے تھے،اوریہ کہ یہاں اس قدردورمدینہ میں رہتے ہوئے اس بگاڑ کی اصلاح کافی مشکل تھی،اسی حقیقت کااحساس وادراک کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے اب مدینہ سے انہی دوردرازکے علاقوں کی طرف نقل مکانی کاارادہ کیا،تاکہ وہاں قریب رہتے ہوئے ان فتنوں کابہترطریقے سے قلع قمع کیا جاسکے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ماہِ ربیع الثانی سن ۳۶ہجری میںمدینہ میں نوسوجانبازوں پرمشتمل ایک لشکرتیارکیا،اورخوداس کی قیادت کرتے ہوئے ابتدائی طورپربصرہ کی طرف کوچ کرنے کا اعلان کیا۔ اکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے متعددحضرات ٗبالخصوص حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس پریشان کُن صورتِ حال میں اُن شورش زدہ علاقوں کی جانب روانگی کاارادہ ترک کردینے کامشورہ دیا۔ لیکن حضرت علیؓ نے اس سلسلہ میں معذرت کااظہارکیا…اورپھرمدینہ سے عین روانگی کے وقت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بے ساختہ آگے بڑھ کرآپؓکے گھوڑے کی لگام تھام لی اوراسے روک لیا،اورپھربڑے ہی حسرت آمیزلہجے میں یوں کہاکہ :’’اے امیرالمؤمنین!اگرآپ ایک بارمدینہ سے چلے گئے تو…پھرشایدآپ زندگی میں دوبارہ کبھی رسول اللہ ﷺکایہ شہرمدینہ ٗرسول اللہﷺکی یہ مسجد ٗاوریہ منبرومحراب… نہیں دیکھ سکیں گے‘‘، اس کے بعدمزیدیہ بھی کہا’’اگرآپ آج اس شہرمدینہ کوچھوڑکرچلے گئے…تو