اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ترین موقع پرحضرت علیؓ ہی باربارمختلف تدبیروں کے ذریعے ان باغیوں کوسمجھانے بجھانے اوررفع دفع کرنے کی کوششیں کرتے رہے…مزیدیہ کہ اُن دنوں حضرت علیؓ نے اپنے دونوں جوان بیٹوں یعنی حضرت حسن ٗنیزحضرت حسین رضی اللہ عنہماکومسلسل حضرت عثمان کے گھرکی نگرانی پرمقررکئے رکھا…تاکہ شرپسندکوئی موقع پاکرگھرکے اندرداخل نہ ہوسکیں، غرضیکہ ان دونوں جلیل القدرشخصیات میں باہم بڑی محبتیں اورقربتیں رہیں،اورآپس میں یہ ہمیشہ شیروشکرکی مانندرہے۔ اورپھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھرکے طویل محاصرے کے بعدآخرجب انہیں نہایت بیدردی کے ساتھ شہیدکردیاگیا…اوریہ المناک خبرحضرت علیؓ تک پہنچی توآپؓ حیرت زدہ رہ گئے،اورانتہائی رنجیدہ ودل گرفتہ ہوگئے،حتیٰ کہ شدتِ غم کی وجہ سے آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے…کیونکہ باقی تمام صحابۂ کرام کی طرح یہ خبران کیلئے بھی بالکل غیرمتوقع تھی،دراصل اس بغاوت اورفتنے کے موقع پران سبھی حضرات کایہی خیال تھاکہ یہ وقتی معاملہ ہے…کیونکہ دوردرازکے علاقوں سے آئے ہوئے یہ باغی کچھ عرصے بعدتنگ آکرخودہی واپس لوٹ جائیں گے…نیزیہ کہ ان باغیوں کی سرکوبی کی غرض سے بعض دوردرازکے علاقوں سے اسلامی لشکرکی مدینہ کی جانب روانگی کی خبریں بھی موصول ہورہی تھیں… لہٰذاان تمام حضرات کایہی خیال تھاکہ اس معاملے کاکوئی نہ کوئی مناسب حل ضرورنکل آئے گا…یا…زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس فتنے کی آگ کوبجھانے کی غرض سے حضرت عثمان ؓ خودہی ’’منصبِ خلافت‘‘سے دستبرداری اختیارکرلیں گے…کیونکہ باغیوں کامحض یہی مطالبہ تھا…جان لینے دینے کاتووہاں کوئی معاملہ ہی نہیں تھا…لیکن اب جوکچھ ہوگیا…یعنی حضرت عثمان ؓ کاقتلِ ناحق…اوروہ بھی اس قدربھیانک طریقے سے