جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
فصلیں ہیں پہلی فصل نماز کے فرضوں میں۔ پھر الگ الگ ہر فرض کا حکم لکھا ہے۔ سجدے کو فرضوں میں شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اور من جملہ ان کے سجدہ ہے دوسرا سجدہ بھی مثل پہلے سجدہ کے باجماع امت فرض ہے۔ یہ زاہدی میں لکھا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری اردو ج1 ص109 پھر سجدہ کرنے کا سنت طریقہ لکھتے ہیں: اور سجدہ کا مکمل سنت طریقہیہ ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں سجدہ میں لگاوے۔ پھر کچھ آگے چل کر یہ مسئلہ لکھا ہے: حجۃ میں ہے کہ اگر سجدہ کی جگہ پر بہت سے کانٹے یا شیشے کے ٹکڑے ہوں اور وہاں سے سر اٹھا کر دوسری جگہ رکھ لے تو جائز ہے اور یہ دوسرا سجدہ نہ ہو گا بلکہ کل ایک ہی سجدہ ہو گا۔ یہ تاتار خانیہ میں لکھا ہے۔ پھر وہ مسئلہ لکھا ہے جو طالب الرحمن نے نقل کیا ہے۔ طالب الرحمن نے ترجمہ بالکل غلط کیا ہے جس سے مسئلہ کی صورت ہی بدل جاتی ہے۔ عالمگیری میں بحث چلی آ رہی ہے کانٹوں اور شیشے کییعنی اگر سجدہ کرنے کی جگہ پر کانٹے ہوں یا شیشے کے ٹکڑے وہاں پڑے ہوں تو نمازی کیا کرے؟ ایسے نمازی کے لیے جو مجبور ہے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ وہ اگر ہاتھوں اور گھٹنوں کو نہ رکھے تو بالاجماع نماز جائز ہو گییہ سراج الوہاج میں لکھا ہے۔ یعنی کھڑے کھڑے اشارے سے سجدہ کر لے۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اول اردو ص109، 110