جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
دیں اور وہ شخص اسلامی عدالت میں اس نوعیت کا مقدمہ دائر کر دے کہ میں پچاس روپے کا پانی خرید کر مٹکے میں ڈالا تھا، فلاں پاگل نے نجاست سے لبریز انگلی کو پہلے اچھی طرح چاٹا پھر اپنی انگلی میرے پانی میں ڈبو دی جس سے پانی پلید اور بے کار ہو گیا۔ لہٰذا مجھے پاگل کے مال سے پانی کی قیمت دلائی جائے تو جس قاضی نے فتاویٰ عالمگیری کا مندرجہ بالا مسئلہ پڑھا ہو گا وہ یہ کہہ کر مقدمہ خارج کر دے گا کہ جب مدعی خود تسلیم کرتا ہے کہ پاگل نے پہلے انگلی سے نجاست کو چاٹ کر زائل کر دیا تھا پھر پانی میں ڈبو دیا تھا تو پاگل کی انگلی کے سبب پانی پلید نہ ہوا کیوں کہ جب انگلی پر سے نجاست زائل کر دی گئی تو نہ انگلی پلید رہی نہ ہی پانی پلید ہوا۔ فتاویٰ عالمگیریکی عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اﷲ نجاست کو چاٹنا جائز ہے۔ یایہ کہ فقہ حنفی میں انگلی پاک کرنے کا یہی طریقہ ہے یہ نجس فہمی صرف طالب الرحمن کی دماغی نجاست کا نتیجہ ہے بلکہ فتاویٰ عالمگیری میں تو یہاں تک نفاست پسندی فرمائی گئی ہے کہ جو حلال جانور نجاست کھاتا ہو اسے نہ کھائیں بلکہ کئی دن تک باندھ رکھیں کہ نجاست نہ کھانے پائے پھر جب اس کا گوشت نجاست کے اثر سے پاک ہو جائے تو ذبح کر کے کھائیں اونٹ چالیس دن تک باندھا جائے گا۔ گائے بیس دن تک، مرغی تین دن تک اور چڑیا بھی ایک دن۔ فتاویٰ عالمگیری ج5 ص298 باقی طالب الرحمن نے جو دو آیتیں نقل کی ہیں احناف کا ان پر عمل ہے وہ احناف کے خلاف نہیں ہیں۔