بہت ضروری ہے ۔ حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہٗ کے ملفوظات میں ایک واقعہ مذکور ہے ، انھوں نے فرمایا کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ کے زمانے میں ایک عورت کاجو کچھ پڑھی لکھی نہیں تھی انتقال ہورہا تھا ۔ وہ نزع کی حالت میں کچھ بول رہی تھی ، جو گھر والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ، ایک آدمی حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں آیا کہ اور واقعہ بیان کرکے تشریف لے چلنے کی درخواست کی ۔ شاہ صاحب فوراً وہاں گئے ، تو عورت کہہ رہی تھی ’’ھٰذان رجلان یقولان لی ادخلی الجنۃ‘‘ یہ دو آدمی مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ جنت میں چلو ، داخل ہوجاؤ۔ حضرت شاہ صاحب نے حیرت سے یہ بشارتی کلمات سنے اور پوچھا کہ یہ کوئی بزرگ خاتون ہیں ؟ انھیں تو دنیا ہی میں جنت کی بشارت مل رہی ہے ، لوگوں نے کہا کہ نہیں یہ کوئی نیک خاتون کیا ہوتی ، یہ تو بہت تیز مزاج اور تند خو عورت تھی ، بات بات پر لوگوں سے لڑ جاتی ، بالخصوص جب اذان ہوتی تو یہ کسی کو کچھ نہ بولنے دیتی اور نہ کچھ کرنے دیتی اور اگر درمیان اذان کوئی عورت بول پڑتی تو یہ اذان کے ختم ہونے پر اس سے بہت لڑتی کہ تم اذان کے وقت کیوں بولی ! حضرت شاہ صاحب ؒ نے فرمایا شاید یہی اس کا جذبۂ احترام تھا ، جس کی وجہ سے خود اس کی زبان پر بشارت کے کلمات جاری ہوئے اور وہ بھی عربی زبان میں جو اہل جنت کی زبان ہے ۔
سچ ہے ،’’وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اﷲِ فَإنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(سورہ حج) اور جو کوئی اﷲ کے شعائر کی عظمت کرتا ہے ، تو یہ اس کے دل کے تقویٰ کا ثمرہ ہے ۔
لیکن اب یہ سارا حال قصۂ پارینہ بن چکا ہے ۔ اب عام مسلمانوں کو نہ نماز کا احترام رہا، نہ اذان کا ، نہ مسجد کا ، نہ علماء ومشائخ کا ، بلکہ اﷲ ورسول کا احترام بھی دلوں سے رُخصت ہوتا جارہا ہے۔
چند ہفتے پہلے ایک ضرورت سے مسلمانوں کے ایک بڑے گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا ، جہاں خدا کے فضل سے عربی اور حفظ کے دودو مدرسے چلتے ہیں ۔ علماء وحفاظ کی بھی ایک معقول تعداد وہاں ہے ، دن بھر وہاں رہنے کاا اتفاق ہوا ۔ ایک مسجد کے قریب ایک