رہے ، ہر ٹرک الگ الگ انداز سے سجایا گیا تھا، کوئی پھولوں سے آراستہ تھا ، کسی کو پھلوں سے سجایا گیا تھا ، کسی پر بڑے بڑے بینر لگے ہوئے تھے ، الگ الگ جماعتوں ، انجمنوں ، برادریوں ، پیشہ وروں اور محلوں کے الگ الگ ٹرک تھے ، ہر ٹرک پر اوباش اور لاخیرے قسم کے نوجوان اور لڑکے ہڑبونگ مچارہے تھے ، سڑک پر اِترااِترا کر ناچ رہے تھے، تھرک رہے تھے، ڈھول تاشے بجارہے تھے ، نماز کا وقت ہے، مسجدوں میں نماز یں ہورہی ہیں ، اور یہ عاشقان رسول نعرے لگارہے ہیں ، ’’علی کادامن نہیں چھوڑیں گے ‘‘ ’’غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے ‘‘ ’’خواجہ کا دامن نہیں چھوڑیں گے ‘‘ ’’آدھی روٹی کھائیں گے ،اسلام کو بچائیں گے ‘‘ ’’چوبیس نمبر ہائے ہائے ‘‘ انھیں نعروں کے شور وغل میں اسلام کو بچانے والے نمازوں کو برباد کررہے تھے ، نمازیوں کو پریشان کررہے تھے ، مسجدوں کی بے حرمتی کررہے تھے ، ٹریفک جام ، راہ رَو پریشان، پولیس کا عملہ دم بخود، عام لوگ سراسیمہ، اور اسلام کے یہ نام لیوابہادر اچھل اچھل کر ’’ نہیں چھوڑیں گے ، نہیں چھوڑیں گے ‘‘ کے نعرے گونجا رہے تھے ۔
ایک شخص بیٹھا سوچ رہا تھا کہ قرآن سے ، احادیث رسول سے ، تاریخ کے مطالعہ سے،اور اپنے اساتذہ کے ذریعے واسطہ در واسطہ رسول اﷲ ا سے ، مذہب اسلام کی جو حقیقت اور صورت سمجھ میں آتی ہے وہ اس موجودہ تصویر سے کتنی مختلف ہے۔
دین اسلام ایک سنجیدہ اور دانشمندانہ مذہب ہے ، جس میں اﷲ کی عبادت کا وہ عمدہ ترین طریقہ ہے جس سے بہتر تو کیا، اس کے برابر بھی سوچا نہیں جاسکتا، اس میں معاملات کی دیانت اور صفائی ہے، اس میں اخلاق کی بلندی ہے ، اس کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کی ذات سے بجز اذن الٰہی کے کسی کو ذرا بھی ایذاء نہ پہونچے، اس مذہب میں لہوولعب ، خرافات، گانے بجانے ، ناچنے تھرکنے، اچھلنے کودنے ، اور لغویات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اگر کسی کھیل کی اسلام نے اجازت دی ہے، تو اس میں بھی سنجیدگی اور مقصدیت کے پہلو کو برقرار رکھا ہے ، اسلام ہر محل اور ہرزمان میں ایک نافع، بابرکت اور دل آویز دستورِ حیات ہے۔
سوچنے والا سوچے جارہا تھا کہ یہ اسلام جو بمبئی کی سڑکوں پر نظر آرہا ہے، یہ اسلام تو