ہر چہ رسد از دوست نیکوست
محبوب اور دوست کی بارگاہ سے جو کچھ ملے سب بہتر ہے ، البتہ عنایت ومہربانی مختلف رنگوں میں آتی ہے ، کبھی لطف وکرم کی شکل میں آتی ہے تو آدمی خوش ہوتا ہے ، مطمئن ہوتا ہے ، کبھی برنگ قہر وجلال آتی ہے تو آدمی گھبراتا اور فریاد کرتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی فضل وکرم ہی کا ایک انداز ہوتا ہے۔
حق تعالیٰ کی مہربانیوں کے یہ دونوں رنگ باہم دگر ہم آغوش ہوکر آتے رہتے ہیں ، کبھی آدمی خوش وخرمی سے نہال ہوتا ہے ، کبھی پریشانی وبے قراری سے بدحال ہوتا ہے ، لیکن ایمان کی دولت اسے مطمئن رکھتی ہے ، وہ ہرحال کو حق تعالیٰ کاانعام وافضال سمجھتا ہے ۔
ابھی دوتین ماہ پہلے یہ خاکسار اور اس خاکسار کا چھوٹا سا خاندان حالات کی ناسازگاری کے تھپیڑوں کی زد میں آگیا تھا ، ایسا لگتا تھا کہ متاع صبر وقرار لٹ کر رہے گی ،اور خرمن سکون واطمینان جل کر رہے گا ، مگر اﷲ کی مہربانی تھی جس نے سہارا دے دیا ۔
ذوقعدہ ۱۴۳۲ھ کی تین تاریخ تھی اور اکتوبر ۲۰۱۱ء کی دوسری تاریخ، اتوار کادن تھا ۔ ان سطور کا راقم درس قرآن کے لئے اعظم گڈھ شہر جارہاتھا ، راستہ میں تھا کہ غازی پور سے فون آیا کہ میرے فرزند عزیز مولوی محمد عابد سلّمہ کا لخت جگر بر خوردار زاہد جو گھر بھر کی آنکھوں کا نور تھا ، سب کا پیارا تھا ، نانہال میں بیمار ہے ، اس کے لئے دعا کیجئے ، پھر مغرب کی نماز کے بعد درس سے فراغت ہوئی ، اطلاع آئی کہ یہ چارسالہ بچہ دنیا سے منہ موڑ کر چلا گیا اور گھر کا نور غائب ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون
مجھے دہرا صدمہ ہوا۔ایک تو پوتے کی موت کا غم ، دوسرے اپنے لخت جگر کے صدمے کا غم! لیکن اب کیا ہوسکتا ہے ، پیدا ہونے سے پہلے ہی موت کا وقت متعین ہوچکا ہوتا ہے ، غم تو بہت دل گداز تھا بلکہ جاں گداز تھا ،مگر اﷲ نے صبر ورضا کی توفیق بخشی ۔ مولوی محمد عابد سلّمہ مدرسہ شیخ الہند انجان شہید میں تھے ، ان سے ملنا ، اس صدمہ پر صبر کی تلقین کرنا بڑا صبر آزما مرحلہ تھا ، مگر بہر حال اس سے دوچار ہونا تھا ، انجان شہید گیا ، انھیں اور ان کے