عام طور سے معلوم ہے، مثلاً سب جانتے ہیں کہ نماز اللہ تعالیٰ کی خصوصی عبادت ہے، اس کا تعلق بجز خدا کے اور کسی سے نہیں ہے، پھر نماز کے ساتھ اس کے خصوصی شرائط، مثلاً طہارت، وضو وغسل کا تعلق روزروشن کی طرح واضح ہے، نیز نماز قائم کرنے کی جگہیں یعنی مساجد کا خصوصی تعلق بارگاہ الٰہی کے ساتھ ہرشخص جانتا ہے، آدمی کے دل کے تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اللہ کے دربار سے براہ راست تعلق رکھنے والی ان چیزوں کا ظاہر وباطن ہرلحاظ سے ادب واحترام بجالایاجائے۔
ان سب شعائر کی ایک روح ہے، اور ایک ان کی ظاہری شکل وصورت اور ڈھانچہ ہے، جس طرح کسی شے کے کامل وجود کے لئے اس کی روح کا اہتمام ضروری ہے، اسی طرح اس کا ڈھانچہ بھی ٹھیک ٹھیک حکم کے مطابق ہونا چاہئے، ورنہ اگر جسم عیب دار ہوگا تو اس کا حسن متاثر ہوگا، اور اس کی خوبی نگاہ سے گرجائے گی، نماز کی روح اس کاخشوع وخضوع اور اس میں ذکر الٰہی ہے،مگر ڈھانچہ قیام وقرأت اور رکوع وسجود سے مرکب ہے، یہی حال دوسرے شعائر کا بھی ہے، دین کاحکم ہے کہ جہاں ان کے مغزوروح کا اہتمام کیاجائے، وہیں ، ان کے ظاہری ڈھانچے اور شکل وصورت کے آداب کا بھی پورا اہتمام کیاجائے۔
صرف ذکرالٰہی اور خشوع وخضوع کیف مااتفق مطلوب نہیں ہے، بلکہ نماز کا خصوصی ڈھانچہ بھی مطلوب ہے، طہارت ، وقت، قیام وقعود اور رکوع وسجود کی ظاہری شکل بھی مقصود ومطلوب ہے، اس لئے ان سب کے احکام وحدود کا علم ضروری ہے تاکہ عبادات کو بجالانے والا افراط وتفریط کی بے ادبی میں نہ پڑے۔
ہمارے زمانے میں ، دین سے اور دینی حقائق وآداب سے بے رغبتی بلکہ بے نیازی، جس طرح عام ہوتی جارہی ہے، اہل احساس پر مخفی نہیں ، کتنے لوگ ایسے ہیں جنھیں شعائر الٰہی کی پرواہ ہی نہیں ، وہ اپنے طور طریقوں کو چھوڑ کر اغیار کے طریقۂ عمل کو اختیار کرتے ہیں ، اور کتنے ایسے ہیں جو دینی احکام توبجالاتے ہیں ، مگر ایک رسم ورواج کی طرح، ان کے حدود واحکام اور مسائل وارکان سے بے پروا ہوکر۔ حالانکہ ان سب کا ادب واحترام اور نظم