منیٰ آتے ہیں ، یہاں ایک جمرہ کی رمی ہے ، پھر قربانی ہے ، پھر سر منڈانا ہے ، اس کے بعد طواف زیارت ۔ ایک جمرہ کی رمی تو آج ہی متعین ہے ، قربانی ، سر منڈوانے اور طوافِ زیارت میں ۱۲؍ ذی الحجہ تک گنجائش ہے ، ۱۱؍اور ۱۲؍ کو زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی ہے، بس ۱۲؍ کی شام تک حج کے تمام اعمال پورے ہوئے ، کوئی مزید ثواب حاصل کرنا چاہے، تو ۱۳؍ کو بھی زوال کے بعد رمی کرلے۔
یہ پانچ دن تو حج کے لئے لازم ہیں ، چھٹا دن اختیاری ہے ۔ آپ غور کریں ، اگر یہ پانچ دن آدمی اس طرح گزاردے کہ ظاہر اور باطن سے محض اﷲ کی طرف متوجہ ہو ، اور حوائج ضروریہ کے علاوہ تمام اوقات کو ذکر وعبادت میں لگادے تو کیا مشکل ہے ؟ مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگ فضول باتوں میں ، گھومنے پھرنے میں ، ارباب انتظام کی شکایتوں میں ، کھانے پینے کی دقتوں کے بیان میں بہت سا وقت کھودیتے ہیں ، منیٰ میں ۸؍ کو حج کا کوئی مستقل عمل نہیں ہے ، اس کو یونہی لایعنی مشغلوں میں کاٹ دیتے ہیں ، منیٰ سے عرفات جانا، اتنی بڑی تعداد کا وہاں منتقل ہونا، ایک بڑا کام ہے ، مگر بہر حال سارا مجمع وہاں پہونچ جاتا ہے ۔ وہاں یہ تماشہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے لوگ ناواقفیت یا لاپروائی سے عرفات کے حدود کے باہر ہی پڑجاتے ہیں ، پھر اﷲجانے وہ حدودعرفات میں کب داخل ہوتے ہیں ؟ اور داخل بھی ہوتے یا وہیں رہ جاتے ہیں ، اور جولوگ معلموں کے خیموں میں ہوتے ہیں ، وہ تو عرفات ہی میں ہیں ، لیکن وہ جو وقوف کا وقت ہے ، اور وہی اصل حج ہے ، اور وہی کائنات کا سب سے بیش قیمت وقت ہے ، اتفاق کہئے یاانتظام کی خامی کہئے دوپہر کو عرفات میں کھانا تقسیم ہوتا ہے ، اورحاجیوں کا اچھا خاصا وقت اس میں کھپ جاتا ہے ، پھر آدمی پیٹ بھر کر کھالیتا ہے تو نیند ستانے لگتی ہے ۔ میں اپنے ساتھیوں سے عرض کرتا ہوں کہ صبح کو کچھ کھاپی لیں ، دوپہر کا کھانا حذف کرکے دلجمعی سے ذکر وتلاوت اور دعا میں لگیں ، بعض خیموں میں کچھ لوگوں کو تقریر کا جوش اٹھتا ہے ، لاؤڈ اسپیکر لگاکر بعض اوقات لمبی لمبی تقریریں ہونے لگتی ہیں ، حالانکہ اگر تذکیر مقصود ہے تو مختصر بات کے بعد سب کوکام پر لگادینا چاہئے ، اتنے سے وقت میں بھی کچھ لوگ سولیتے ہیں ، ادھر ادھر ٹہل