لوگ گنہگار ہوتے ہیں ، نوجوان عورتوں کی بہتات میں فساد قلب ونظر سے بچنا کتنا مشکل ہے، محتاج بیان نہیں ، مگر وہی بات ہے کہ عبادت کے خیال پر دوسری دنیاداری کی باتوں کا خیال غالب آگیا ہے ، اس لئے جو کچھ کیا جارہا ہے اس پر عبادت اور رضائے الٰہی کے آثار کم اور دنیاداری کے آثار زیادہ نظر آتے ہیں ، طواف کعبہ سے لے کر منیٰ، عرفات اور مزدلفہ تک عورتوں کے ہجوم اور ان کی ناروا نقل وحرکت کی وجہ سے عبادت کا ماحول ، میلہ اور تماشہ کا ماحول بن جاتا ہے ۔ نعوذ باﷲ من شرور الفتن۔
اگر مرد اس پر کچھ قابورکھیں ، احرام کے علاوہ دوسرے اوقات میں عورتوں کو پردہ میں رکھیں ، انھیں پابند کریں کہ وہ عبادت کے لئے آئی ہیں ، عبادت کے آداب اختیار کریں تو معاملہ کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ، مسجد حرام میں اور مسجد نبوی میں عورتوں کی نماز کے لئے الگ الگ جگہیں متعین ہیں ، مسجد نبوی میں تو خیر مردوں کے درمیان عورتوں کے آنے کی گنجائش نہیں ہوتی ، مگر مسجد حرام میں طواف کے واسطے سے مردوں کے درمیان عورتیں خوب آتی ہیں ، اور نماز باجماعت میں بھی مردوں کے درمیان بے تکلف گھسی رہتی ہیں ، حالانکہ جماعت کی نماز میں مردوں کے برابرکھڑے ہونے سے دائیں ، بائیں اور ٹھیک پیچھے کے مرد کی نماز برباد ہوجاتی ہے ، مگر کسے پرواہ ہے ، کتنے لوگ ہیں ، جو اپنے پہلو میں عورتوں کو کھڑا کرلیتے ہیں ، یہ جہالت بھی ہے ، عبادت کی بے وقعتی بھی ہے ، مسئلہ کی اہمیت سے بے پروائی بھی ہے ، کاش مرداس پر دھیان دیتے ، اور کاش حرم کی تقریروں اور مواعظ میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا ۔ ائمہ حرم جہاں یہ کہتے ہیں سووا صفوفکم واعتدلوا(صفیں سیدھی کرلیں اور برابر کھڑے ہوں ) اس طرح وہ یہ بھی کہہ دیا کریں کہ عورتیں پیچھے کھڑی ہوں ، مردوں کی صف میں نہ کھڑی ہوں ، مگر اس مسئلہ پر بالکل سناٹا ہے۔
حرم محترم ہو یا مسجد نبوی! یہ بات مسلم ہے کہ عورتوں کی نماز مسجد کے مقابلے میں گھر کے اندر افضل ہے ،فرائض تو وہ گھر کے اندر ادا کرلیا کریں ، ہاں دن یا رات کے کسی حصے میں مسجد میں جائیں ، نوافل پڑھیں ، تلاوت کریں ، ذکر الٰہی میں مشغول رہیں ، اور مردوں