بھیجا جائے، مگر ہمیں مجبوری رہی کہ اس کا خاطر خواہ انتظام نہ کرسکے ، کبھی انتظام ہوا تو ادھورا اور ناتمام! نتیجہ یہ ہوا کہ قرض جوں کا توں باقی رہا ، کچھ رقم ہاتھ آئی ، اور پریس پہونچایا ، تو قرض میں جوکچھ کمی آئی ، اگلے پرچے کی اشاعت نے پھر وہیں تک پہونچادیا ۔ یہی چکر چلتا رہا ، یہاں تک کہ دسمبر ۲۰۰۵ء میں بندہ سفر حج کی سعادت حاصل ہوئی ، اور فروری میں واپسی ہوئی ، بڑی مشکل سے نومبردسمبر کا شمارہ مشترک نکلا تھا ، واپسی کے بعد جنوری فروری کا شمارہ شائع کیا گیا ، اس کے بعد سے ارادے پر ارادے ہوتے رہے ، مگر ہمت نہیں ہوتی تھی کہ قرض کی گرانباری مزید بڑھائی جائے ۔ اشاعت کا سلسلہ رک سا گیا ، دلوں میں وسوسے آنے لگے کہ رسالہ کو باقی رکھا جائے یا بند کردیا جائے۔ باقی رکھنے کی جو دشواری ہے وہ سامنے ہے ، بند کرنے میں یہ دقت تھی کہ جہاں بیشتر حضرات کے ذمے رقمیں باقی ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جن کی رقمیں پیشگی موصول ہوچکی ہیں ، ان کو اطلاع دینی ، پھر ان کی رقموں کی واپسی ایک درد سر تھا ، پھر بہت سے بزرگوں نے تاکید کی کہ رسالہ جاری رکھا جائے ، اس راہ سے خدمت دین کا سلسلہ بند نہ کیا جائے۔ فتنوں کے دور میں علومِ صحیحہ اور مضامین حقہ کی اشاعت اﷲ کے نزدیک ان شاء اﷲ بڑے اجر وثواب کی چیز ہے ، اور رسالہ جب شروع کیا گیا تھا ، اس وقت یہی جذبہ تھا کہ علوم دین کی صحیح تبلیغ کی جائے ، اس راہ میں دقتیں آئیں گی ، انھیں جھیل لیا جائے گا ، مگرشدید مالی تنگی نے ارادہ کو ہرادیا ۔ ہر وقت اس تنگی کی دُہائی دیتے رہنا طبیعت پر گراں بھی ہے ، اور قارئین کی ناگواری کا اندیشہ بھی لگارہتا ہے ، تو اربابِ انتظام کشمکش کا شکار ہوئے کہ کریں تو کیا کریں ؟
پھر غوروفکر کے بعد اور تمام احوال کو پیش نظر رکھنے کے بعد فیصلہ یہی ہوا کہ انتظام میں تھوڑی وسعت دی جائے ، حالانکہ اس میں ہمارے لئے دشواری ہے ، تاہم اس دشواری کو جھیلا جائے ، اور رسالہ کی اشاعت باقی رکھی جائے ۔ اﷲ سے دعا کی جائے کہ غیبی نصرت شامل حال رہے ۔
اس فیصلے کے بعد کئی ماہ کے وقفے کے بعد یہ شمارہ نکالا جارہاہے ، اگرچہ خلا خاصا لمبا