کے اس پاک گھر میں ناپاک مال لگانا گوارا نہ کیا، چنانچہ حطیم کا حصہ کعبہ مقدسہ کا جز تھا، اب وہ اس کے باہر ہے، غرض یہ ہے کہ کفر وشرک اور بت پرستی نے خانہ کعبہ کا ظاہری ادب برقرار رکھا تو اسے کچھ عرصہ تک مہلت ملی رہی، پھر ابرہہ نے اس مقدس گھر کے ساتھ شوخ چشمی کی، اس کے انہدام کے لئے فوج لیکر چڑھا۔ اہل مکہ باوجودیکہ بت پرست تھے، مگر جانتے تھے کہ یہ گھر ان بتوں کا نہیں ہے، اﷲ کا ہے، انھوں نے اﷲ کا گھر اﷲ کے حوالے کیا، بتوں کے حوالے نہیں کیا، انھیں مقابلے کی طاقت نہیں تھی، تو اپنی جان لیکر پہاڑوں میں چلے گئے۔ پھر اﷲ نے اپنے گھر کی حفاظت کر لی، ابرہہ اپنے لشکر سمیت پرندوں کے مسلسل حملوں کی تاب نہ لا سکا، اور سب کھائے ہوئے بھس کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئے۔
اس دور کے طاغوتوں نے پھر اس دیار مقدس پر نگاہ جمائی ہے، عالم اسلام ان کے مقابلے میں کمزوری محسوس کر رہا ہے، سامان جنگ کی بھی کمزوری، فوج کی بھی کمزوری، ہمّت وحوصلہ کی بھی کمزوری، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان کی بھی کمزوری! یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام اگرچہ زمین کے ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، مسلمانوں کی حکومتیں بہت سی ہیں ۔ اور بہت صاحب ثروت بھی ہیں ، قدرتی خزانوں سے مالا مال ہیں ، مگر سب سہمے ہوئے ہیں ، ہر ایک حکمراں کو یہ فکر ہے کہ اس کی حکومت نہ چلی جائے، اس لئے کوئی دم سادھے بیٹھا ہے، کوئی ہم نوائی اور موافقت میں پیش قدمی کرتا ہے، چند ایک ہیں جو اس طاغوت کو للکارتے ہیں ، اگر سارا عالم اسلام ایک آواز ہو کر اٹھ کھڑا ہوتا، تو کسی طاغوت کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ آنکھ دکھاتا۔ اگر یہ حکومتیں مظلوم طالبان کی حمایت پر کمر بستہ ہو گئی ہوتیں ، جن پر محض ناحق ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، تو آج بغداد پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ ہوتی۔ مگر ’’حبّ دنیا‘‘ اور ’’کراہیت موت‘‘ نے ان حکمرانوں کے قلوب کودیمک کی طرح چاٹ لیا ہے، مشہور حدیث ہے جس کو امام ابو داؤد نے حضرت ثوبانؓ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:
رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا قریب ہے (وہ زمانہ) کہ (دشمن) قومیں تمھارے خلاف (جنگ کرنے اور تم کو مٹا دینے کے لئے) ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں