السُّجُوْدِ} (سورۃ البقرۃ) میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجدہ کرنے والوں کے واسطے پاک وصاف رکھو، یعنی کفر وشرک کی آلودگی، اور بتوں کی نجاست سے پاک رکھو، پھر ایک عرصۂ دراز تک اﷲ کا یہ گھر ہر قسم کی آلودگی سے پاک رہا، حضور اکرم ا کی ولادت شریفہ سے تقریباً تین سو سال پہلے، ایک سر پھرے گمراہ نے اس میں بت نصب کر دیاتھا، پھر یہ گندگی بڑھتی گئی، یہاں تک کہ رسول اکرم ا کی ولادت کے وقت تین سو سے زائد بتوں کو وہاں رکھ دیا گیا، ہجرت کے آٹھ سال بعد جب آپ نے مکہ فتح کیا تو ان بتوں کو، اور بت پرستوں کو حرم مکہ سے نکال باہر کیا، آپؐ کی برکت سے اب یہ علاقہ بشمول مدینہ منورہ بت پرستی اور کفر وشرک کی نحوست سے پاک ہے، طاغوت نے ہر دور میں زور لگایا کہ اس حرم خداوندی میں دخل اندازی کرے مگر جلال الوہیت وغیرتِ محبوبیت نے اسے توڑ کر رکھ دیا۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِإلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ ألِیْمٍ} (سورۃ الحج) جو اس میں یعنی حرم میں از روئے سرکشی ظلم کا ارادہ کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔ تاریخ کی شہادت ہے کہ جس نے حرم مکہ کے ساتھ ظلم وزیادتی کا ارادہ کیا، وہ ٹوٹ کر رہا۔ کبھی دنیا میں بھی اس نے سزا بھگتی، کبھی بظاہر دنیا میں بچا رہا، مگر آخرت کے سخت عذاب سے اسے نجات نہ ملی۔ بت پرستی ایک عرصہ تک اس مرکز توحید میں گھسی رہی، مگر بت پرستوں نے کعبۃ اﷲ شریف کے ظاہری ادب کا دامن ہاتھ سے چھوڑا نہیں تھا۔ وہ بیت اﷲ کا طواف کرتے تھے، اور طواف کرتے وقت اللّٰہم اغفر لي (اے اﷲ میری مغفرت کر دیجئے) کی گردان کرتے تھے، وہ حج کے ارکان ادا کرتے تھے، حد یہ ہے کہ جب کعبہ شریف میں ایک بار آگ لگی، اور اس کی عمارت خستہ ہو گئی، تو اس کی تعمیر نو کے لئے حلال مال کا انھیں بت پرستوں نے جن کے پاس زیادہ تر سرمایہ مالِ حرام کا تھا، اتنا اہتمام کیا اور اس میں اتنی شدت برتی کہ کعبہ کی تعمیر کے لئے خالص حلال مال اتنا نہ جمع ہو سکا جس سے اس کی پوری تعمیر ہو سکتی،تو انھوں نے کعبہ کی عمارت کو چھوٹا کرنا گوارہ کیا، مگر اﷲ