بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، جو مطلوب اور ضروری ہیں ، اوردنیا وی تدبیروں کواتنی اہمیت دینے لگتا ہے، جیسے وہی کارساز ہوں ، ہمارے ملک میں تو مسلمان بہت کچھ بے بس اور کافروں کی زیادتیوں کے شکار ہیں ،گو کہ انفراداً اور اجتماعاً یہاں بھی امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور ایمان باﷲکے میدان میں بڑی وسعت ہے ، لیکن اﷲ کو ماننے والا ادھر سے روگردانی کرکے ، اپنے نفسانی جذبات کی تکمیل میں منہمک رہتا ہے، اسی میں مال بھی پھونکتا ہے، اسی میں وقت بھی ضائع کرتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں ایک جگہ یہ راقم موجودتھا، دوسری جگہ جانے کے لئے ایک کرایہ کی گاڑی کی تلاش جارہی تھی مگر مل نہیں رہی تھی ۔ اتوار کا دن تھا ، مجھے تعجب ہورہا تھا کہ اتنا مالدار شہر ہے ، گھر گھر گاڑیا ں ہیں پھر بھی نہیں مل پارہی ہے ، معلوم ہواکہ آج اتوار ہے ، مسلمانوں کے خوش عیش گھرانے، ان کے بچے اور نوجوان گاڑیاں بک کرالیتے ہیں ، اور ان میں بھر بھر کر دوردراز جگہ میں پکنک منانے جاتے ہیں ، کھاتے ہیں ، پیتے ہیں ، رنگ رلیاں مناتے ہیں ۔ یہ سن کر دل کو بڑا دھکا لگا کہ ہمارے موجودہ حالات اس ملک میں کیا اس طرح کے بے جا اور بے تحاشا فضول بلکہ معصیت کے اخراجات کی اجازت دیتے ہیں ؟ کیا انھیں لچھنوں پر اﷲ کی نصرت وحمایت کی امید ہے؟
خیر یہ تو اپنے ملک کی بات ہے، جہاں سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے مسلمان مغلوب ہیں ۔ رونا تو یہ ہے کہ جہاں مسلمان سیاسی اعتبار سے بالادست ہیں ، وہاں بھی خیر امت ہونے کے مذکورہ اوصاف ناپید ہیں ، ان کا انتظام حکومتوں کو کرنا چاہئے ، مگر دکھ کی بات ہے کہ وہ اﷲ کی تعلیم کو نظر انداز کرکے کفار کے سامنے کاسۂ گدائی لئے نظر آتے ہیں ، ڈرتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم کو بڑا نقصان پہونچ جائے گا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ، ذرا مذکورہ بالا آیت پر غور کریں ، راستہ بھی کھلے گا ، تسلی بھی ہوگی ،اور حق تعالیٰ کی طرف سے نصرت بھی ہوگی۔ (اکتوبر ۲۰۰۲ء)
٭٭٭٭٭