مسلمان بے چارہ کبھی صفائی دیتا ہے، کبھی اس جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف احتجاج کرتا ہے، قراردیں پاس کرتا ہے ، مگر بات جوں کی توں رہتی ہے، پھر گھبرا کر علماء پر اور اپنے رہنماؤں پر خفا ہوتا ہے، کہ یہ لوگ کیوں نہیں ہمہ گیر قسم کا جواب دیتے کہ معاملہ بالکل صاف ہوجائے ، پھر مزید ناراض ہوکر کہتا ہے کہ ان علماء نے سائنسی ترقی کی اہمیت کو نہیں سمجھا، یہ صرف اپنے مدرسوں میں بند رہتے ہیں ، سائنسی طاقت ان کے ہاتھ میں ہوتی تو منہ توڑ جواب دیا جاسکتا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں !
مسلمان اس آیت مبارکہ پر غور کریں اور انصاف سے اپنا، اپنے اعتقاد ویقین کا ، اور اپنے کردار وگفتار کا جائزہ لیں ، مسلمانوں کی سیاست اور ان کی زندگی کااور اس کا محور اور ان کا مقصدِ زندگی تو آخرت کی سرخروئی اور کامیابی ہے اور ان کا اعتماد وانحصار اﷲ کی ذات پر ہے،مسلمان پابند ہیں ،آزاد نہیں ہیں ، انھیں ہر عمل اور قول میں اﷲ کے احکام کو پیش نظر رکھنا ہے اور ان پر عمل پیرا ہونا ہے، اس لئے مسلمان کسی بھی گناہ میں اس حد تک نہیں جاسکتا جہاں تک کافر پہونچتا ہے۔
جب یہ بات ہے تو اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تمام دنیاوی تدبیروں کا مکلف نہیں بنایا ہے، تقویٰ وطہارت کے ساتھ کچھ کچھ تدبیریں ان کے لئے کافی ہیں ، تدبیروں میں انہماک اور غلو ان کے حق میں مفید تو کیا مضر ثابت ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے خیر امت ہونے کی تین بنیادیں اﷲ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہیں :ایک امر بالمعروف،دوسرے نہی عن المنکر، تیسرے ایمان باﷲ،یہ تینوں چیزیں جس درجے میں مطلوب ہیں ، انھیں حاصل کرنے کی مسلمان کوشش کرے ، اس کے بعد یہود ونصاریٰ کی مشنری ان کے خلاف زہر اگلتی ، ان کی میڈیا فضا میں آگ برساتی رہے۔ اس سے معلوم ہواکہ زبان وقلم کی ایذارسانی رہے گی، لیکن مسلمان اپنے طریق کار پر مضبوطی سے ثابت قدم رہیں تو ان باتوں کا کوئی خاص ضرر نہ ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ اپنی غیبی نصرت وطاقت سے ہر ایک کا جواب فراہم کردیں گے۔
مگر افسوس یہ ہے کہ مسلمان غلط پروپیگنڈوں سے مرعوب ہوکر ان چیزوں سے