جی ہاں ! کوئی کام نہیں ، یا ہے تو بہت کم ہے ، مگر مصروفیت بہت زیادہ ہے۔ کیا مصروفیت ہے ؟ آج کا آدمی دنیا کمانے میں ، مال حاصل کرنے میں بہت مصروف ہے ، مگر جتنے وقت میں مال حاصل کرنے کا کام ہوتا ہے، اگر آدمی اس کا منصفانہ حساب کرے تو وہ ۲۴؍ گھنٹے میں بہت زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ تاجروں کی دوکانداری کے ، ملازموں کی ملازمت کے ، مزدوروں کی مزدوری کے اوقات متعین ہیں ، کسی کی ڈیوٹی ۸؍ گھنٹے کی ہے ، کسی کی ۶؍ گھنٹے کی ہے ، کسی کو کسی گھنٹے کی پابندی نہیں ہے، مگر پھر بھی سارا وقت مصروف ہے، نماز کا وقت نہیں ملتا، تلاوت کاوقت نہیں ملتا، ذکر کا وقت نہیں ملتا، کسی دینی کتاب یا رسالہ کے مطالعہ کا وقت نہیں ملتا، پھر یہ عدیم الفرصت لوگ کیا کرتے ہیں ؟ کوئی کاروبار ۲۴؍ گھنٹے کا نہیں ، کوئی ملازمت ۲۴؍ گھنٹے کی نہیں ،مگر حد یہ ہے کہ سونے جاگنے کے اوقات بھی غیر منضبط ہیں ، کھانے پینے کے وقت میں گڑ بڑ بہت ہے ، آخر کیا بات ہے؟
کبھی آپ نے اس تضاد پر غور کیا ، وقت بہت ہے ، مگر فرصت بالکل نہیں ہے ، اور یہ بھی نہیں ہے کہ دنیا اسی مسلسل مصروفیت کے سہارے چل رہی ہو، اگر اس مصروفیت کو کم کردیا جائے یا چھین لیا جائے تو دنیا کی طبعی رفتار میں کوئی خلل آجائے گا ، ایسا نہیں ہے ، مصروف سے مصروف ترین انسان اچانک دنیا سے اٹھ جاتا ہے ، اس کی مصروفیت ختم ہوجاتی ہے، وہ پوری فرصت کے ساتھ قبر میں لیٹ جاتا ہے اور دنیا چلتی رہتی ہے، اس کا گھر آباد رہتا ہے، دنیاکانظام برقرار رہتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے وقت سب کے لئے ایک بنایا ہے، سب کے حصے میں دن اور رات کے ۲۴؍ گھنٹے آئے ہیں ، ہاں عمروں میں فرق رکھا ہے ، لیکن یہ فرق موت سے پہلے معلوم نہیں ہوتا ، مسئلہ ان ۲۴؍ گھنٹوں کے استعمال کا ہے، وقت نہیں ملتا، فرصت نہیں ملتی، وغیرہ یہ شکایتیں کیوں پیدا ہوتی ہیں ، اس کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں ۔
عموماً دیکھا جاتا ہے ، آدمی لذت کا جویا ہے، وہ لذتوں کے پیچھے دوڑتا ہے، اسے وقت کے گزرنے کااحساس بہت کم ہوتا ہے ، جب اسے نفس کی لذت حاصل ہوتی ہے ۔