غرض یہ کہ طالبان کاوجود اور ان کی حکومت ایک رحمت الٰہی تھی ، اﷲ نے جب تک چاہا اس کو اٹھالیا، ان میں سے جو شہید ہوگئے یاجو آئندہ شہید ہوں گے ، زندگی تو دراصل انھیں کی زندگی ہے ،اور موت بھی انھیں کی موت ہے ، اﷲ کے یہاں وہ سرخ رو ہیں ، وہ ناکام نہیں ہیں ۔
ہم مسلمانوں کے لئے کسی طرح زیبا نہیں ہے کہ انھیں ناکام قرار دے کر اور اﷲ کے فیصلوں پر معترض ہوکر اپنے ایمان کو خراب وتباہ کریں ۔ طالبان تو بہرحال پندرہویں صدی کے انسان ہیں ، جو کفر وضلالت اور ظلم وستم کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی صدی ہے ، اﷲ نے کتنے پیغمبر ایسے بھیجے ، جو زندگی بھر لوگوں کوہدایت کی دعوت دیتے رہے ، مگر کوئی ماننے کو تیار نہ ہوایا بہت کم لوگوں نے مانا،پھر کتنوں کو ظالموں نے شہید کرڈالا تو یہ بزرگوار ناکام ہوگئے ، انھیں ناکام وہی قرار دے سکتا ہے جس کی نگاہ سے آخرت کی زندگی جو اصل زندگی ہے ، اوجھل ہو۔
اے لوگو! نیکی اورسعادت کاکام جتنا تم سے ہوسکے کرتے رہو،اور مشیت الٰہی پر اپنی تجویزوں کو بنیاد بناکر اعتراض نہ نکالواور نہ شکوک وشبہات میں مبتلاہو، اس دنیوی’’ متاع غرور‘‘ ( دھوکے کے سامان) کو اپنی زندگی کاحاصل نہ قرار دو ،ورنہ دائمی خسارہ میں مبتلا ہوگے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اﷲَ عَلیٰ حَرْفٍ فَاِنْ أَصَابَہٗ خَیْرُ نِ اطْمَأَنَّ بِہٖ وإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ(سورہ حج: ۱۱) بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اﷲ کی عبادت ایک کنارے پر ہوکر کرتے ہیں ، پس اگر انھیں کوئی بھلی بات حاصل ہوتی ہے تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر وہ آزمائش میں پڑگئے تو منہ کے بل پلٹ جاتے ہیں ، یہ دنیا وآخرت دونوں کے خسارے میں پڑے ۔ دیکھو یہ کھلا ہوا خسارہ ہے۔
تو ایک آزمائش کی وجہ سے اے ایمان والو! کیوں دنیا وآخرت کا خسارہ مول لیتے ہو۔ (جنوری ۲۰۰۲ء)
٭٭٭٭٭