شہادت میں سرشار تھے ، جب افغانستان روسیوں کے ناپاک قدموں سے پاک ہوگیا تو وہاں کے قبائلی اور سیاسی لوگ آپس میں خونریزی کرنے لگے ، حکومت بنانے کی کشمکش شروع ہوگئی ، جہاد کا مقصد پورا ہونے کے بعد طالبان اپنے مدرسوں میں لوٹ گئے تھے اور تعلیم وتعلم کے مشغلے میں لگ گئے تھے ، لیکن انھوں نے دیکھا کہ اب خود مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے ، آگ اور خون کی بارش ہورہی ہے ، تو یہ علماء ومشائخ اور طلبہ دوبارہ میدان میں اترے ، اور اس مقصد سے اترے کہ متحارب گروپوں کے درمیان صلح کرائیں ۔
۱۹۹۷ء میں اﷲ تعالیٰ نے اس ظلوم وجہول کو حج وزیارت کی سعادت بخشی ، مدینہ طیبہ میں مشہور عالم دین حضرت مولانا مفتی عاشق الٰہی صاحب بلند شہری علیہ الرحمہ کے دولت کدے پر بندہ حاضر تھا ، معلوم ہوا کہ طالبان کے ایک اہم رکن حضرت مفتی صاحب سے ملاقات کے لئے تشریف لارہے ہیں ، وہ تشریف لائے ، نہایت متواضع، خاشع وخاضع، ’’نرم دمِ گفتگو ‘‘ اور ’’گرم دمِ جستجو‘‘ کے ہو بہو مصداق ! معلوم ہوا کہ طالبان کے مفتی اعظم ہیں ، طالبان کے تمام مسائل اور نظام حکومت میں انھیں کا فتویٰ حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے،دیر تک ان سے باتیں ہوتی رہیں ۔ طالبان کے بعض فیصلوں پر فقہی نقطۂ نظر سے حضرت مفتی صاحب نے علیہ الرحمہ نے اشکال کیا ، انھوں نے جس ادب اور تواضع کے ساتھ کتابوں کے حوالے سے جواب دے کر مفتی صاحب کو مطمئن کیا ، اس سے طبیعت بہت متاثر ہوئی ، علم میں انتہائی راسخ اور ادب وتواضع میں بہت کامل! یہ دونوں صفتیں جہاں جمع ہوجائیں ، وہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ کی اصطلاح میں ’’ کبریت احمر ‘‘ ہے ۔ ان سے حضرت مفتی صاحب نے یہ بھی کہاتھا کہ آپ لوگوں کو حکومت میں دخل نہیں دینا چاہئے تھا، انھوں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کا بالکل ارادہ نہ تھا ، لیکن ہم نے دیکھا کہ باہمی خونریزی بڑھتی جارہی ہے ، تب ہم لوگ متحارب گروپوں سے ملے ، بہت کوشش کی کہ باہم صلح وصفائی ہوکرایک اچھی حکومت بن جائے ، مگر کوئی اپنی جگہ سے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہو ا، اس سلسلے میں مختلف وقفوں کے درمیان ہم لوگ وفد بنابنا کر گیارہ مرتبہ لڑنے والوں سے