جنت کے دروازے کھلے تو رحمت کا دروازہ کھلا،اور آسمان سے موسلادھار رحمتیں زمین پر برسیں ، جہنم کے دروازے بند ہوئے تو عذاب کی لپک کم ہوئی ، شیاطین جکڑے گئے تو گناہوں کی لپٹ ٹھنڈی ہوئی ، ہر طرف فرشتوں کی دھوم دھام ہوئی۔
مبارک ہیں ایمان والے! ایمان کا تقاضا ہے کہ خواہشات اور ضروریات کو مرضی مولیٰ پر قربان کردیا جائے،ایمان والا بے تکلف قربان کرتا ہے، سنو اے ایمان والو! پیغمبر علیہ السلام کا ارشادسنو اور خود قربان ہوجاؤ، زندگی کی سب سے بڑی سعادت یہی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کو ان کے فرمان والا شان پر نچھاور کردے۔ ؎
ہمارے پاس کیا ہے؟ جو فدا کریں تجھ پر مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں
ہائے! اوّل تو ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو اے پروردگار آپ پر قربان کریں ، بس ایک جان ہی تو ہے ، لیکن حسرت بالائے حسرت یہ ہے کہ وہ بھی اپنی نہیں آپ ہی کی دی ہوئی ہے ، خیر یہ ہی سہی، قبول ہوجائے تو کرم ہی کرم ہے ، وہ فرمان والا شان یہ ہے ، حضرت سلمان فارسی صراوی ہیں ، شعبان کا آخری دن ہے ،ا ﷲ کے آخری نبی منبر پر تشریف فرما ہیں ، اور ارشاد فرمارہے ہیں :
’’ اے لوگو! تمہارے سروں پر ایک بابرکت اور عظیم الشان مہینہ سایہ ڈال چکا ہے ، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے ، اﷲ نے اس کاروزہ فرض اور اس کی رات میں نماز کو نفل قراردیا ہے ،اگر کوئی اس میں نفل ادا کرکے اﷲ کا تقرب حاصل کرتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے اس ماہِ مبارک کے علاوہ میں فرض ادا کرنے والاہو، اور جو کوئی اس میں فرض ادا کرتا ہے ایسا ہے جیسے اس کے علاوہ کسی ماہ میں ستّر فرض ادا کیا ہو۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ، یہ غمخواری کا مہینہ ہے ، یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ جس نے اس ماہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی مغفرت ہے ، اور اسے جہنم سے رہائی کی بشارت ہے ، اور اس کے لئے وہی ثواب ہے جو روزہ دار کو ہے ، مگرروزہ دار کا ثواب کچھ کم نہ ہوگا ۔