ہے ، قرض لے کر یا کسی حکومت وغیرہ کی مدد سے حج کرنے گیا تو اس کا یہ عمل غیر شرعی اور ناجائز ہے۔
قرآن کریم اور اسلام پر یہ فتویٰ کتنا بڑاا ظلم ہے ، بس کیا کہا جائے ، قلم ہر ایک کے ہاتھ میں ہے ، جس کا جو جی چاہے لکھ مارے ۔ اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے ، جو شخص مذکورہ بالا استطاعت رکھتا ہے اس پر فرض ہے کہ حج کے لئے جائے ، یہ بات نہیں ہے کہ جس کے پاس یہ قدرت واستطاعت ہوحج میں جانا اسی کے لئے جائز ہو اور اگر نہ ہو تو حج میں جانا جائز ہی نہیں ۔ حج کا فرض ہونا دوسرا مسئلہ ہے ، اور حج کا جائز ہونا دوسرا مسئلہ ہے ، یہ تواور اندھیر ہے کہ صرف اپنی ہی کمائی سے جانا جائز ہے ، تب تو بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی صاحب ثروت انسان کسی دوسرے کو اپنے ساتھ اپنے خرچ سے حج میں لے جانا چاہتا ہے یا بھیجتا ہے ، تو یہ بھی جائز نہیں ہونا چاہئے ، اس لئے کہ وہ اپنی کمائی سے نہیں جارہا ہے ، حالانکہ اگر کوئی یہ فتویٰ دے تو بالکل غلط ہے ، ہاں جائز آمدنی والی بات معقول ہے۔
اداریہ نگار کو اپنی غلطی کااعتراف کرنا چاہئے ، اس سے توبہ ومعذرت کرنی چاہئے ، سبسڈی کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے۔ ( اپریل ۲۰۰۱ء)
٭٭٭٭٭