ڈریں ، اس کی نافرمانی سے بچیں ، اس کی شریعت کو اپنا دستور العمل بنائیں ، اس کے سامنے گریہ وزاری کریں ، اپنے گناہوں کی معافی چاہیں ۔
اﷲ تعالیٰ کا قہر وجلال گناہوں پر ہی برستا ہے ، قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے متعددقوموں کااور ان کے انبیاء کا تذکرہ کیا ہے ، ہر جگہ ایک ہی مضمون ہے کہ جب لوگوں نے حد سے زیادہ سرکشی اور نافرمانی کی ، تو عذاب کا کوڑا دنیا میں لگنے لگا، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ : اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ اِرَمَ ذَاتِ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوْا الصَّخْرَ بِالْوَادِ وَفِرْعَوْنَ ذِیْ الْاَوْتَادِ الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیاکیا ، جو ارم میں تھے ، بڑے ستونوں والے کہ ان جیسے لوگ شہروں میں نہیں پیدا ہوئے ، اور ثمود کے ساتھ کیا کیا، جنھوں نے پہاڑیوں وادیوں میں چٹانیں تراش کرمکانات بنائے تھے ، اور فرعوں کے ساتھ کیاکیا، جو بڑے لاؤ لشکر والا تھا ، یہ لوگ وہ تھے جنھوں نے اپنے اپنے ملکوں میں سر اٹھایا تھا اور ان میں بڑی خرابی پیدا کررکھی تھی ، پھر تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسادیا ، بلاشبہ تمہارا رب گھات میں ہے۔
سرکشوں اورشر پسندوں کے سلسلہ میں یہ ایک دائمی صداقت ہے ، جس کو کبھی تاریخ جھٹلا نہیں سکتی ، کہ جب شرارت بڑھتی ہے ، ظلم کا پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے، قدرت کا قہر وغضب یکایک اترتا ہے اور آدمی تو آدمی ہے زمین کو تہ وبالا کردیتا ہے ، اور اسی پر بس نہیں ہے ہمیشہ کے لئے لعنت ان کے پیچھے لگ جاتی ہے ، یہاں ڈوبتے ہیں تو جہنم میں نکلتے ہیں ، اور وہاں کے ابدی عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ نے قوم نوح کے بارے میں فرمایا ہے: مِمَّا خَطِیْئَاتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْ نَاراً فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَنْصَاراً۔ ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں پانی میں غرق کیا گیا ، پھر وہ جہنم میں داخل کئے گئے ، پھر