زمزم پیتے وقت فیضانِ الٰہی سے حافظ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ جیسے علم کی درخواست کی تھی ، اس کی ذکاوت بے مثال تھی ، اس کی دقّتِ نظر عجیب تھی ، اس کا مطالعہ وسیع تھااور عمیق بھی ! ان خصوصیات نے اسے علم وتحقیق بالخصوص علومِ حدیث کی ایک زندہ علامت بنادیا تھا ، وہ علماء وفضلاء کا مرجع تھا ، تحقیق کی الجھی ہوئی گتھیاں اس کے یہاں سلجھتی تھیں ، حدیث وقرآن کی مشکلات کا تشفی بخش حل اس کے پاس تھا ۔ علم رجال کے مخفی خزانوں پر اس کی دسترس تھی ، فقاہت اس کی طبیعت تھی ، وہ سراپا علم تھا۔
یہ بدرِ تاباں ! نہیں ! آسمانِ فضل وکمال کا آفتابِ درخشاں ۹۳؍سال تک مئو کے افق پر چمکتا رہا ،اور دنیائے علم کو روشنی اور حرارت بخشتا رہا ، آخر میں اس کا جسم انتہائی نحیف ونزار ہوگیا تھا ، قُویٰ جواب دے گئے تھے ، بینائی نے نظریں چرالی تھیں ، مگر دل ودماغ بالکل تازہ دم اور نشیط تھے ، حالت یہ ہے کہ بستر علالت پر جسمِ بیمار پڑا ہو اہے ، آنکھیں بند ہیں اور حدیث کے ایک مشہور ذخیرہ ’’ مُصَنَّفْ اَبِیْ شَیْبَہ‘‘ کی تحقیق جاری ہے ، ایک ایک لفظ پر غور ہورہا ہے ، غلطیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے ، حواشی املا ہورہے ہیں ، اسی دوران خالق کائنات کی طرف سے بلاوا آگیا ، کتابِ دنیا بند کردی گئی ، آخرت کا دروازہ کھول دیا گیا ، زندگی بھر کی کاوش وکوشش کا صلہ ملنے کا وقت آگیا۔ کچھ عرصہ تک یہ آفتاب موت وحیات کی کشمکش میں جھلملاتا رہا ، بالآخر ۱۰؍ رمضان المبارک کی شام کو جب دنیا کو روشنی بخشنے والا آفتاب غروب ہورہاتھا اور رمضان المبارک کا مقدس مہینہ عشرۂ مغفرت میں داخل ہورہا تھا ، ٹھیک اسی وقت علم وفضل کا یہ آفتاب دنیا کے افق سے غروب ہوکر حق تعالیٰ کی آغوشِ رحمت میں جاپہونچا۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون
یہ عظیم ہستی مئو اور اس کے اطراف میں ’’ بڑے مولانا ‘‘ کے نام سے معروف تھی اور علماء وفضلاء اسے ’’ محدثِ جلیل، فاضل اَجل، ابولمآثر حضرت علامہ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی ‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔
حضرت محدث اعظمیؒ دنیا سے تشریف لے گئے ، وہ اپنی بے لوث خدمات کا صلہ