قربان ہونے اور مرمٹنے کا مقام ہے! کہاں ہیں بوجھ سے دبے ہوئے بندے ؟ کہاں ہیں آفت کے مارے ہوئے غلام ؟ کہاں ہیں روزی سے پریشان بھوکے؟ کہاں ہیں رحم وکرم کی آس لگائے ہوئے مساکین؟ کہاں ہیں زمانے کے ٹھکرائے ہوئے فقراء؟ آئیں ، آگے بڑھیں ، قریب ہوجائیں ، ہاتھ بڑھائیں ، دامن پھیلائیں ، مانگتے جائیں اور پاتے جائیں ، بخشش عام ہے ، رحمت تمام ہے ، محروم وہی ہے جو اس دریائے فیض کو بھی پاکر محروم رہے ، بد قسمت وہی ہے جو رب عالی کی پکار پر بھی سوتارہے اور اس کی آنکھ نہ کھلے۔
اے دنیاوی آفات میں مبتلا انسانو! تم اپنے مصائب کا علاج اور مشکلات کا حل کہاں ڈھونڈ ھ رہے ہو؟ تمہارے معاملات کا سرا یہاں اس عالم میں نہیں ہے ، ان کا سرا عالم غیب میں ہے ، عالم غیب ہی کے اشارے پر یہاں سب کچھ ظاہر ہوتا ہے ، یہاں کی تدبیریں کچھ نہیں ہیں اگر وہاں کا اشارہ صادر نہ ہو! اپنی جدوجہد کا رخ ادھر ہی پھیر دینے کی ضرورت ہے ، عالم غیب تک رسائی اعمال غیب ہی سے ہوتی ہے ، خواہ وہ ذکر وعبادت ہو یا حسن سلوک اورا خلاق حسنہ ہوں ، یا دعاء ومناجات ہو۔ إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (اسی کی جناب میں کلمۂ طیبہ پہونچتا ہے اور عمل صالح اس کو اوپر اٹھاتا ہے )
کلمۂ خبیثہ ( کفر) اور اعمالِ بد تو پستی میں پھینک دئے جاتے ہیں ، ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے نہیں جاتے ہیں ۔ إِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَاتُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ وَلَایَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ،بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے، تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے۔
تو ایمان والو! اصول یہی ہے ، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کلمہ طیبہ اور اعمال صالحہ عالم غیب کے حدود مملکت میں داخلہ پاتے ہیں ، ہر الجھاؤ کے سلجھاؤ اور ہر مصیبت سے راحت اور ہر کلفت سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ آدمی کے قلب سے، زبان سے ، ہاتھ پاؤں