فرق مراتب کا لحاظ شرط ہے۔ سلیقہ یہ ہے کہ تنبیہ اور فہمائش کا انداز ہمدردی اور خیر خواہی کا ہو ، خوامخواہ ذلیل کرنے اور زچ کرنے کا انداز نہ ہو ، نہ کسی کے پیچھے پڑا جائے۔ آدمی کا کام دلسوزی اور ہمدردی کے ساتھ نصیحت کرنا ہے ،چاہے جتنی مرتبہ کرنی پڑے ، اس نصیحت پر عمل کرادینا ، اس کااثر دل میں ڈالنا اﷲ کاکام ہے۔
طریقہ یہ ہے کہ جس بات کا حکم دیتا ہے یا جس بات سے منع کرتا ہے ، اس کا عمل اور اس کا حال اس کے قول کی تردید نہ کرتا ہو ، آدمی جس چیز پر خود عمل کرتا ہے اس کا حکم کسی کو دے گا تو اس سے نصیحت کے قبول ہونے کی توقع زیادہ ہے اور خود اس کی ذلت نہ ہوگی ۔ اسی طرح جس بات سے منع کرتا ہے اس میں اس کا دامن آلودہ نہیں ہونا چاہئے ورنہ ملامت اور رسوائی کا نشانہ بن کر رہے گا۔ آپ جس کو کسی اچھی بات کی تلقین کریں گے یا کسی برائی پر ٹوکیں گے تو اس کی نگاہِ احتساب آپ پر اٹھے گی ۔۔۔۔۔اور یہ فطری بات ہے۔۔۔۔۔ اگر وہ دیکھے گا کہ آپ کی زندگی اسی سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے جس کی آپ تلقین کررہے ہیں تو وہ مطمئن ہوجائے گا ، پھر اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کا قصد کرے گا ، اور اگر اس نے دیکھا کہ آپ تلقین تو ضرور کررہے ہیں مگر آپ کا معیار ِعمل اس کے مطابق نہیں ہے تو وہ لاپروائی سے ٹال دے گا کہ پہلے آپ اپنے کو دیکھئے ، یہ طریقہ کہ قول وعمل میں تضاد ہوخود ایک منکر (برائی) ہے ۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے ٹوکا ہے ، فرماتے ہیں کہ :اَ تَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّوَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتَابَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ یہ خطاب علمائے یہود سے ہے ۔ فرماتے ہیں کہ تم اوروں کوتو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو فراموش کردیتے ہو، حالانکہ تم کتاب اﷲ کو پڑھتے ہو ،کیا اتنا نہیں سمجھتے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا ہے اور پوری خیر خواہی سے کرتا ہے ، لیکن بیٹا دیکھتا ہے کہ باپ کا اس پر عمل نہیں ہے ، تووہ ذرا سا بھی متاثر نہیں ہوتا ۔ علماء عوام کو فہمائش کرتے ہیں ، وعظوں میں بھی ، تحریروں میں بھی، عام گفتگوؤں میں بھی، مگر جب کرنے کا موقع آتا ہے تو بسا اوقات بہت سے علم دین رکھنے والے اور اصطلاحاً عالم کہلانے