ناموافق حالات میں جب عام مسلمانوں کے احوال کا جائزہ لیاجاتا ہے ،تو کئی چیزیں ایسی سامنے آتی ہیں جو ایک مسلمان کے لئے کسی طرح مناسب نہیں ہوتیں ۔ اس سلسلے میں ایک بات عرض کرنی ہے۔
جب کہیں فساد ہوتا ہے یا کوئی مصیبت آتی ہے ، تو عام طور پر مسلمانوں میں ایک طرح کی مایوسی اور بزدلی کااحساس پایا جانے لگتا ہے ۔ اخبار اور ریڈیو افواہیں پھیلاتے ہیں ، عوام کی زبانیں اس میں اضافہ کرتی ہیں ، اور پھر ایسی بھیانک صورت حال لوگوں کے پیش نظر ہوجاتی ہے کہ خود بخود ہراس بڑھ جاتا ہے ، مایوسی کا سایا گھنا ہوجاتا ہے اور مسلمان بے بس محسوس ہونے لگتا ہے ، جیسے اس کا سہاراکوئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے عموماً بزدلی بڑھ جاتی ہے ، کہیں آنے جانے میں اس طرح خوف محسوس ہونے لگتا ہے جیسے موت تعاقب میں ہے ، اِکا دُکا ایسے واقعات بھی سننے میں آجاتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ہجوم میں یا محض کسی وہم میں مبتلا ہوکر مسلمان اپنے کو غیر مسلم ظاہر کرنے لگتا ہے ۔ شکل وصورت تو مسلمانوں کی بکثرت ہندؤں جیسی دکھائی دیتی ہی ہے، بعض کمزور افراد ہاتھ میں دھاگا باندھ کر خود کو چھپاتے ہیں ۔ کوئی نام بدل دیتا ہے، اس طرح کی مثالیں بکثرت تو نہیں ، لیکن سننے میں آتی ہی رہتی ہیں ۔
یہ سخت بزدلی اور نامردی ہے ، مسلمانوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کے والی ووَلی اﷲتعالیٰ ہیں ، مسلمان اگر اپنے دل میں اﷲ کا ڈر رکھے ، ان کے نبی کی پیروی دل سے کرے تو اس کا کوئی طاقت کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ ہر آن اسے اس کا دھیان رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ میرے ساتھ ہیں ، تمام طاقت کا سرچشمہ اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے ، اس کی معیّت کے بعد کسی بھی مخلوق کا کچھ ڈر نہیں ، مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے۔ حضور اکرم اکے سامنے غزوہ احد میں مسلمانوں کو ایک شکست کاسامنا کرنا پڑا تھا ، کیفیت مایوسی ہی کی تھی ، کفار کاسالارِ لشکر نعرہ پر نعرہ لگارہاتھا کہ لَنا العُزیٰ ولاعُزیٰ لکم (ہمارے لئے عزیٰ ہے اور تمہارے لئے عزیٰ نہیں ) عزیٰ کفار کاایک بت تھا ، شاید عزت وغلبہ کا بت رہا ہو، اس کے جواب میں