وقت ان کی شہرت عام نہیں ہوئی تھی ، ان کے بعض تلامذہ کے واسطے سے ان کا نام سن رکھا تھا، دل نے عقیدت کی حلاوت محسوس کی ، ملاقات ہوئی ، ہلکا سا تعارف ہوا، ایسا محسوس ہوا کہ وہ بھی پہلے سے کچھ واقف ہیں ۔ مسجد سے باہر نکل کر کچھ دور آئے اور اور لوگوں کے ہجوم کے درمیان سے کچھ موقع ملا تو میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے ، اور بہت آہستہ آہستہ فرمانے لگے کہ اس دور میں اﷲ کے دین کی خدمت کرنے کی بہت ضرورت ہے ، اﷲ نے جس کو جو صلاحیت دی ہو ، دین کی خدمت میں اسے جھونک دے ، آپ کو اﷲ تعالیٰ نے تقریرکی ، تدریس کی ، تحریر کی ، اور دوسری بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے ، آپ اپنی سب صلاحیتوں کو دین کی خدمت میں لگادیجئے ، اتنا فرماکر فوراً لوگوں کے مجمع میں پہونچ گئے ، اور مجھے اتنا بھی موقع نہیں ملاکہ اپنی عدم صلاحیت اور بے لیاقتی کاا ظہار کرسکوں ۔
حضرت مولانا کی یہ بات دل میں گڑگئی ، صلاحیت ولیاقت تو نہ اس وقت تھی اور نہ اب ہے ، لیکن ان کی بات سے حوصلہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی کام ہوسکتا ہو ، تو اس کا رُخ پھیر کر دین ہی کی طرف لگادیا جائے ، اسی میں اپنی سعادت ، خوش بختی ہے ۔ تدریس کا ٹوٹا پھوٹا سلسلہ تو جاری ہی تھا ، وعظ وتقریر پر طبیعت بمشکل آمادہ ہوتی تھی ، اس کے لئے خود کوتیار کیا ، لیکن تحریر وتالیف کا تو کوئی تصور نہ تھا ، نہ مزاج وطبیعت کو اس سے مناسبت تھی ،اور نہ کبھی اس کی طرف التفات ہواتھا ، کبھی کبھار کسی ضرورت یا مجبوری کے تحت قلم سے کام لے لیا ہوتو اس کی حیثیت ایک استثنائی شے کی ہے ،تاہم بزرگوں کی بات خالی نہیں جاتی ۔ ۱۴۱۳ھ میں محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی نور اﷲ مرقدہٗ کی یادگار میں مجلہ ’’ المآثر‘‘ کا آغازہوا ،تو قلم کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا، اب جلد جلد کچھ کچھ لکھنے کی نوبت آنے لگی۔ مجلہ ’’المآثر‘‘ کا علمی وتحقیقی معیار ایسا ہے کہ وہ صرف خواص اور اہل حضرات کی دسترس میں آسکتا ہے ، بہت سے دوستوں ، عزیزوں اور کرم فرماؤں کی خواہش ہوئی ، اور یہ خواہش دلوں سے زبانوں پر آئی ، کہ کوئی رسالہ ایسا بھی نکلنا چاہئے جو عام فہم ہو ، جس سے خاص وعام سب مستفید ہوسکیں ، اس میں متنوع موضوعات ہوں ۔ غیر معیاری نہ ہو ، لیکن معیار بہت بلند نہ ہو۔