لے کے جو ان مشاغل میں مبتلا ہیں ، دیکھئے کہ ان کی عملی اور روحانی زندگی کیسی ہے؟
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی، مادی اور دنیاوی تقاضوں کی تکمیل کا مزاج عام ہو چکا ہے؟ اسے تم کتنا روک سکتے ہو؟ میں عرض کروں گا کہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ، رکاوٹ کھڑی کرنے کے ذمہ دار ہیں ،غلط کو غلط کہہ دینا رکاوٹ کو کھڑا کر دینا ہے۔ اب اگر کوئی اسے گرا کر آگے بڑھ جائے تو وہ ظالم ہے۔ پس یہ نہیں ہو سکتا کہ غلط کو صحیح کہہ کہ ہم رکاوٹ کو منہدم کر دیں ۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ علم اور عمل پیش کر دیں ، جس سے دنیا کی بے ثباتی، آخرت کی ترجیح، روحانی ترقی اور جسم ومادیت کی بے وقعتی سامنے آجائے۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آخرت کی طرف جائے، اور جس کا جی چاہے دنیا میں لت پت رہے یہلک من ہلک عن بینۃ ویحیی من حی عن بینۃ (سورہ انفال) (جو ہلاک ہو، دلیل کے ظاہر ہونے کے بعد ہلاک ہو، اور جو زندہ رہے، دلیل سے زندہ رہے۔)
یہ طریقہ غلط ہے کہ گناہوں کے عموم وشیوع سے متاثر ہو کر، دنیا والوں کے لعن وطعن سے ڈر کر عصر حاضر کے تقاضوں کی دہائی سن کر ہم اسلامی مزاج وخصوصیات سے صرف نظر کر لیں ، شریعت کے احکام میں کتر بیونت شروع کر دیں ، دین کی محکم اور مستحکم دیواروں میں سوراخ پیدا کرنے لگ جائیں ۔
( ماہنامہ ضیاء الاسلام :ستمبر ۲۰۰۵ء)( بشکریہ مجلہ ’’ المآثر ‘‘ )
٭٭٭٭٭