کی توفیق تو ہوتی نہیں ، البتہ اپنے گھروں میں پوری قوت سے ٹیپ ریکارڈ یا ٹی۔ وی چلادیتے ہیں ، جس کے شور سے مسجدیں گونجتی ہیں اور نماز یوں کو سخت دقت کا سامنا ہوتا ہے ، ٹیپ ریکارڈ بجاتے ہوئے مسجد کے پاس سے بے تکلف اس طرح گزر تے ہیں جیسے انھیں اس کا احساس ہی نہ ہو کہ یہاں کوئی قابل احترام چیز بھی ہے ۔ حد تو یہ کہ عین مسجد کے زیر سایہ ہمارے نوجوان کھیل کود کے مقابلے رکھ دیتے ہیں اور لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کرتے رہتے ہیں ، اور یہ سلسلہ کئی کئی روز تک چلتا رہتا ہے ، مسجد میں اذان ہوتی ہے ، مگر کھیل کے متوالوں کے کانوں سے اچٹ کر چلی جاتی ہے ، کھیلنے والے کھیل میں محو ہیں ، دیکھنے والے لذتِ نفس میں غرق ہیں ، اور ع
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
سب کھلاڑی ہوگئے یا تماش بیں ہوگئے ، اور جو نمازی ہیں وہ پریشان ہیں ، ابھی چند دنوں پہلے خبر ملی کہ ایک صاحب کے یہاں شادی کی دعوت بڑے دھوم دھام سے تھی ۔ یہ دعوتیں کیا ہوتی ہیں ، منکرات کا ہجوم ہوتا ہے ، اتفاق یہ ہوا کہ عین کھانے کے وقت بارش شروع ہوگئی ، لوگ پلیٹیں لے کر مسجد میں بھاگے ، پھر مسجد میں دسترخوان لگ گیا اور مسجد ، مسجد نہ رہی ڈائننگ ہال بن گئی ، إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون ! جن لوگوں کو نماز کے لئے مسجد میں جانے کی توفیق نہیں ہوتی وہ کھانے کے لئے مسجد میں پہونچ گئے۔ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
( جلدنمبر :۱۲، شمارہ نمبر :۲ ، ربیع الثانی ، جمادی الاولیٰ، جمادی الاخریٰ ۱۴۲۴ھ ؍ اگست ، ستمبر ، اکتوبر۲۰۰۳ء)
٭٭٭٭٭