حسنہ سے خروج، دائرۂ ظلم میں انسان کو پہنچا دے گا۔ زندگی کے ہر مرحلہ میں مومن کو اس کی جستجو ہونی چاہئے کہ رسول اﷲ ا کا اسوۂ حسنہ کیا ہے، اپنے آپ کو اسی پر مضبوطی سے ڈال دے، خواہ اس کی وجہ سے دنیا میں اجنبی بن کر رہ جائے، دنیا والے اسے اجنبیت سے دیکھیں گے، لیکن فرشتے اسے پہچانیں گے، رسول اکرم ا کی بشارت اس کے حق میں صادق آئے گی، فرمایا کہ بَدَأ الإسلامُ غَرِیباً و سَیَعودُ غَریباً کَما بَدَأَ فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبائِ اسلام کا جب آغاز ہوا تھا تو اس وقت کے ماحول میں اجنبی تھا، اسے پہچاننے والے کم تھے، اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ اجنبی بن کر رہ جائے گا، نہ اسلام کو لوگ پہچانیں گے، نہ اس پر عمل کرنے والوں کو، تو ان اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے۔
گھبراہٹ اور مایوسی کی بات بالکل نہیں ہے کہ اسلام پر عمل کرنے کی وجہ سے آدمی اجنبی سا ہو کر رہ جائے، بلکہ یہ خوشی اور سعادت کی بات ہے، اس کے لیے بشارت ہے۔
تو جو چیز اﷲ نے اور اﷲ کے رسول نے ہمارے لیے پسند کی ہے، جو عقیدہ پسند کیا ہے، جو عمل منتخب کیا ہے، جو سیرت تجویز کی ہے، جو صورت ہمیں عطا کی ہے، اس پر ہم رہیں ، نہ چہرہ مہرہ بدلیں ، نہ لباس غیروں جیسا پہنیں ، نہ غیروں کی طرح ترکِ نماز کریں ، نہ دنیا اور متاعِ دنیا کو کفار و مشرکین کی طرح اہمیت دیں ، نہ مخلوق کو کارساز سمجھیں ، بس اﷲ سے لو لگائے رکھیں ، ہر کام کے بناؤ اور بگاڑ کی جگہ وہی ہے، اﷲ پر پختہ ایمان رکھیں ، بالیقین توکل کریں ، اور اپنی زندگی کو اس آیت کے سانچے میں ڈاھل لیں {قُلْ اِنَّ صَلاتِیْ وَ نُسُکِیْ و مَحْیاَیَ و مَماتِیْ ﷲ رَبِّ الْعالَمِینَ لا شَریکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنا اَوَّلُ الْمُسْلِمینَ} تم کہہ دو کہ بے شک میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں پہلا فرمانبردار ہوں ۔
رضائے الٰہی تک پہونچانے والی راہ یہی ہے۔ فَتُوْبُوا اِلیَ اﷲ جَمیْعاً اَیُّھا المومنونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ ( شوال تا ذی الحجہ۱۴۲۳ھ؍فروری تامارچ ۲۰۰۳ء)
٭٭٭٭٭ ( ضیاء الاسلام :جنوری ۲۰۰۸ء)