اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
کمزورپڑچکی ہے، رعایابھی خوب پھیل چکی ہے،اس لئے اے اللہ!اب تومجھے بس اپنے پاس بلالے‘‘۔ (۱) اورپھرمدینہ منورہ پہنچنے کے بعدمسجدِنبوی میں خطاب کے دوران اللہ سبحانہ ٗوتعالیٰ سے اپنے لئے شہادت کی دعاء مانگی…لیکن پھرفوراًہی فرمانے لگے : أَنَّیٰ لِي الشَّھَادَۃ؟ یعنی’’میرے نصیب میں شہادت کہاں؟‘‘ اس جملے سے غالباًمقصدیہ ہوگاکہ مختلف محاذوں پرجواسلامی افواج اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرمصروفِ جہادہیں …وہ تمام علاقے مدینہ سے بہت دور…سینکڑوں ٗ بلکہ ہزاروں میلوں کی مسافت پرہیں…لہٰذامحاذِجنگ سے اس قدردوریہاں مدینہ میں بیٹھے ہوئے ’’شہادت‘‘کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے…؟اورپھرقدرے توقف کے بعدخودہی یوں فرمانے لگے: اِنَّ الَّذِي سَاقَنِي مِن مَکَّۃَ اِلَیٰ المَدِینَۃِ قَادِرٌ عَلَیٰ أن یَسُوقَ لِي الشَھَادَۃَ اِلَیٰ المَدِینَۃ یعنی’’وہ اللہ جس نے اپنے فضل وکرم سے مجھے مکہ سے مدینہ پہنچادیا،یقیناوہ اس بات پربھی قادرہے کہ اب میرے لئے ’’شہادت‘‘ کوبھی یہیں مدینہ میںہی پہنچادے‘‘۔ (۲) اس واقعہ کے بعدمحض چندروزہی گذرے تھے کہ ماہِ ذوالحجہ کے آخری دنوں میں ’’ابولولوفیروز‘‘نامی مجوسی غلام نے آپؓ کے قتل کامنصوبہ بنایا،اس مقصدکیلئے اس نے ایک بڑازہرآلودخنجربھی تیارکیا۔ایک روزنمازِفجرسے پہلے ہی اندھیرے کافائدہ اٹھاتے ہوئے ------------------------------ (۱) تاریخ عمربن الخطاب /ابن الجوزی،صفحہ:۲۰۶۔ (۲) یعنی حضرت عمررضی اللہ عنہ اصل میں تومکی تھے ،قبیلۂ قریش ے تعلق تھا،یہ تومحض اللہ کی طرف سے احسان تھاکہ انہیں اسلام کی دولت نصیب ہوئی ،اورپھردیگرمسلمانوں کی طرح مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت بھی نصیب ہوئی …اللہ کے اسی احسان کی طرف اشارہ مقصودتھا۔