اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
دے رہے تھے ،اوراسی مقصدکی خاطروہ دن بھردشمن کے خلاف میدان میں برسرِپیکار رہا کرتے تھے…لیکن اگروہ آپس میں ہی اختلاف و افتراق کاشکارہوجاتے…توپھردشمن کے خلاف کس طرح لڑتے…؟ اس کے علاوہ یہ کہ قرآن کریم تواہلِ ایمان کوباہم اتفاق واتحاداوراخوت ومساوات کاسبق سکھاتاہے…لیکن اگراسی قرآن کی تلاوت اوراس کے کلمات کے تلفظ کے بارے میں ہی اہلِ ایمان باہم دست وگریبان ہونے لگیں …تویقینایہ کس قدرافسوسناک بات ہوگی۔ ظاہرہے کہ یہ معاملہ بہت ہی نازک اورانتہائی حساس نوعیت کاتھا،اورکسی بھی وقت بڑے فتنے میں تبدیل ہوسکتاتھا،چنانچہ سپہ سالارکی حیثیت سے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میںپیشگی سدِباب کے طورپرمناسب کارروائی کافیصلہ کیا،اوراسی مقصدکی خاطر وہ آرمینیاسے طویل سفرکرتے ہوئے مدینہ پہنچے ،جہاں انہوں نے خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو صورتِ حال کی سنگینی اورنزاکت سے آگاہ کرتے ہوئے اس بارے میں جلدازجلدکسی مناسب اقدام کامشورہ دیا،اوراس بات پروہ مسلسل اصرارکرتے ہی رہے ، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ نے کبارصحابہ کرام سے مشاورت کے بعدطے کیاکہ قرآن کریم کاایک نیانسخہ تیارکیاجائے ،اوراس مقصدکیلئے ایسارسم الخط اختیار کیاجائے کہ جس کی بناء پر ہرکلمے کوصرف اسی طرح پڑھناممکن ہوسکے کہ جس طرح اسے پڑھنامطلوب ہے،کسی اورطرح اسے پڑھاہی نہ جاسکے۔ چنانچہ اس متفقہ فیصلے پرعملدرآمدکے طورپرنئے رسم الخط کے مطابق قرآن کریم کاایک نیانسخہ تیارکیاگیا،اوریہ نیارسم الخط حضرت عثمانؓ کی طرف نسبت کی وجہ سے ’’رسمِ عثمانی‘‘کے نام سے ہمیشہ کیلئے معروف ہوگیا۔