اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
’’مدائن‘‘(۱)کے اولین مسلمان فرمانرواکے طورپرحضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کومنتخب فرمایا۔چنانچہ جب یہ مدائن کے فرمانرواکی حیثیت سے اپناعہدہ سنبھالنے کی غرض سے وہاں پہنچے توفارسی بہت بڑی تعدادمیں انہیں دیکھنے کی غرض سے وہاں جمع ہوگئے،کیونکہ سلطنتِ فارس تواُس دورمیں روئے زمین کی عظیم ترین قوت تھی ،جبکہ مسلمانوں کے ہاتھوں اس عظیم سلطنت کاسورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا،لہٰذامسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھانے کی وجہ سے وہ طبعی طورپراب مسلمانوں سے مرعوب تھے،اسی وجہ سے وہ نسل درنسل اپنے قدیم فارسی شہنشاہوں کی شان وشوکت ٗ رعب اوردبدبہ ٗ اورشاہی جاہ وجلال کانظارہ کرتے رہنے کے بعداب سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کی شان وشوکت تواورزیادہ قابلِ دیدہوگی…کیونکہ مسلمان توفاتح تھے،فاتح کی شان وشوکت تویقینا مفتوح کی شان وشوکت سے بہت بڑھ کرہی ہوگی…اسی تصورکی وجہ سے وہ اپنے اس تاریخی شہرکے اولین مسلمان فرمانرواکے استقبال کیلئے اوراس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بہت بڑی تعدادمیںوہاں جمع ہوگئے…لیکن حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تواس وقت جوکیفیت نظرآئی اس کی وجہ سے وہ تمام مجمع انگشت بدندان رہ گیا…کیونکہ کیفیت یہ تھی کہ اُس وقت یہ ایک گدھے پرسوارتھے،گدھے کی پشت پرکوئی گدی وغیرہ بھی نہیں تھی،بالکل ہی ننگی پشت پربیٹھے ہوئے تھے،مزیدیہ کہ اُس وقت انہوں نے اپنے ہاتھ میں خشک روٹی کاایک ٹکڑاتھاماہواتھا جسے چباتے ہوئے چلے آرہے تھے(۲) ٭…خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں سلطنتِ فارس ------------------------------ (۱) موجودہ بغدادکے قریب ’’مدائن‘‘کے آثاراب بھی موجودہیں ۔ (۲) ان کے اس طرزِعمل میںیقینااس جذبے کی عکاسی تھی کہمسلمان کی جنگ صرف ’’اعلائے کلمۃ اللہ‘‘کیلئے ہواکرتی ہے،نہ کہ مال غنیمت ٗکشورکشائی ٗیادنیاوی شان وشوکت کیلئے۔