اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
تھے،اپنی زبان سے ایمان کادعویٰ کرتے تھے،لیکن اندرسے وہ دشمن تھے،لہٰذاایسی صورتِ حال میں ان کے خلاف علیٰ الاعلان کوئی تأدیبی کارروائی ممکن نہیں تھی۔ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اپنی فطری اورخدادادصلاحیت کی وجہ سے ہرمعاملے کا’’کھوج‘‘لگانے اورحقیقت کی تہ تک پہنچ جانے میں چونکہ بڑی مہارت رکھتے تھے ، لہٰذایہی وجہ تھی کہ یہ اس معاشرے میں موجود’’منافقین‘‘کوخوب جانتے اورپہچانتے تھے، ان کی خفیہ سرگرمیوں سے خوب واقف رہاکرتے تھے…لہٰذامنافقین اوران کے ’’شر‘‘ سے یہ ہمیشہ مختلف قسم کے اندیشوں میں مبتلارہاکرتے تھے(دوسرے لوگوں کومنافقین کے ’’شر‘‘اوران کی سازشوں کے بارے میں چونکہ کوئی اندازہ ہی نہیں تھا،لہٰذاوہ اس بارے میں نسبۃً بے فکرتھے) منافقین کے ’’شر‘‘پر حذیفہ رضی اللہ عنہ کی جونگاہ تھی اسی کایہ اثرتھاکہ یہ فرماتے ہیں کہ : کَانَ النّاسُ یَسألُونَ رَسُولَ اللّہﷺ عَنِ الخَیْرِ ، وَکُنتُ أسألُہٗ عَنِ الشّرِ مَخَافَۃَ أن یُدرِکَنِي ۔ (۱) یعنی’’لوگ رسول اللہﷺسے ’’خیر‘‘کے بارے میں دریافت کیاکرتے تھے،جبکہ میں آپؐ سے ’’شر‘‘کے بارے میں دریافت کیاکرتاتھا،اس اندیشے کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی ’’شر‘‘کاشکارنہوجاؤں‘‘(۲) ------------------------------ (۱)صحیح بخاری(حدیث نمبر:۷۰۸۴)کتاب الفتن(نمبر۹۲) باب :کیف الأمراذالم تکن جماعۃ(نمبر۱۱) صحیح مسلم[۱۸۴۷]وغیرہ۔ (۲) یعنی ظاہرہے کہ انسان کو’’شر‘‘کے بارے میں علم ہوگاتبھی تووہ اس شرسے بچنے کی کوئی تدبیرسوچے گا۔حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی چونکہ یہ کیفیت تھی کہ لوگ توہمیشہرسول اللہﷺسے خیراوراعمالِ صالحہ کے بارے میں دریافت کیاکرتے تھے ،جبکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ شرکے بارے میںپوچھاکرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ تمام کتبِ حدیث میں ’’کتاب الفتن‘‘(یعنی آئندہ جوبڑے بڑے فتنے در پیش آنے والے ہیںان سے متعلق احادیث) میں سب سے زیادہ احادیث انہی سے مروی ہیں۔