اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
مبارک دورمیں ہرغزوے کے موقع پرآپ شریک رہے اورپیش پیش رہے،اس کے بعدخلیفۂ اول اورپھرخلیفۂ دوم کے زمانے میں بھی آپ کی یہی کیفیت رہی،لہٰذابس وہ بہت کافی ہوچکا،اب آپ کواس عمرمیں اپنی صحت کی فکرکرنی چاہئے اورآرام کرناچاہئے‘‘ لیکن حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کسی کی ایک نہ سنی ،اوراپنے اس عزم اوراس فیصلے پرقائم رہے کہ ’’میں ضرورجاؤں گا‘‘۔ چنانچہ لشکرمدینہ سے روانہ ہوا،تقریباًڈیڑھ ہزارکلومیٹرکاسفرطے کرنے کے بعدیہ لشکرملکِ شام پہنچا،وہاں سے مزیدآگے بڑھنے کے بعدمختلف محاذوں پرسلطنتِ روم کے مختلف فوجی دستوں کے ساتھ جنگوں اورجھڑپوں کے سلسلے شروع ہوگئے… جنگوں اورجھڑپوں کے اسی سلسلے کے دوران آخراس لشکرکواب ایک ایسے محاذپرپہنچناتھاجس کیلئے بحری سفرضروری تھا(۱) چنانچہ اسلامی لشکرکاوہ بحری بیڑا محاذ کی جانب روانہ ہوگیا،اورجب یہ بحری بیڑاخشکی سے ------------------------------ (۱) خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں بڑے پیمانے پرفتوحات کاجوسلسلہ تھاوہ ان کے بعدکافی حدتک خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی جاری رہا،جس کانتیجہ یہ ہواکہ اب دوردرازکے علاقوں میں مختلف محاذوں پرکارروائیوں کیلئے محض بری (زمینی)فوج کافی نہیں تھی،کیونکہ بہت سے ایسے علاقے تھے جہاں رومی فوج سمندری راستوں سے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کیاکرتی تھی، جارحیت اوراشتعال انگیزی کے یہ سلسلے چلتے رہتے تھے،لہٰذاخلیفۂ سوم کے زمانے میں پہلی بارتاریخِ اسلام میں بحری فوج(نیوی)تیارکی گئی تھی ،جس کانتیجہ یہ ظاہرہواتھاکہ اب خشکی سے نکل کرسمندرکی وسعتوں پربھی مسلمانوں کی برتری قائم ہوگئی تھی،اسی بحری فوج کے ذریعے اُن دنوں مسلمانوں نے سلطنتِ روم کے خلاف بہت سی تاریخی اورفیصلہ کن قسم کی جنگیں سمندرکے پانیوں میں ہی لڑی تھیں،جن کے نتیجے میں مسلمانوں نے بہت سے ساحلی شہراورمتعددجزیرے فتح کئے تھے،جن میں سے اہم ترین جزیرہ ’’قبرص‘‘(Cyprus) تھا۔چنانچہ اسی دور کی یہ بات ہے جب اس لشکرکوسمندری سفرکرناپڑاجس میں حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔