اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
کے چرچے گھرگھرہونے لگے تھے،اوریوں بہت جلدمدینہ شہر’’لاالٰہ الاللہ‘‘کے نورسے جگمگانے لگاتھا… چنانچہ مدینہ شہرمیں وہ لوگ جوکہ اُس دورمیںحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی ان دعوتی کوششوں کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے،انہی میں اُم سُلیم بھی شامل تھیں،جنہوں نے اپنے آباؤاجدادکے دین یعنی کفروشرک سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے دینِ برحق قبول کرلیاتھا…جبکہ ان کاشوہربدستورپرانے دین پرہی قائم تھا۔ اورپھرانہی دنوں کسی جنگ کے موقع پراُم سُلیم کے شوہرکی موت واقع ہوگئی تھی،اورعام رواج کے مطابق اب اسے بھی اپنے لئے ٗنیزاپنے بچوں کیلئے کسی سہارے کی ضرورت تھی،چنانچہ اب بہت سے لوگ اس طرف متوجہ ہوئے،جن میں ابوطلحہ بھی شامل تھے۔ ابوطلحہ نے اس خیال سے کہ کہیں مجھ سے پہلے ہی کوئی اورشخص اس سلسلے میں اُ م سُلیم سے بات طے نہ کرلے…فیصلہ کیاکہ مجھے اس بارے میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے… اور پھر جلدہی ایک روزوہ اُم سُلیم کے گھرکی طرف چل دئیے…اس یقین کے ساتھ کہ اُم سُلیم انہیں دوسرے تمام لوگوں کے مقابلے میں ترجیح دے گی،کیونکہ اس معاشرے میں ان کی خاص حیثیت تھی،خوشحال بھی بہت تھے،شجاعت وبہادری میں بھی بے مثال تھے،مزیدیہ کہ گھڑسواری ٗ تیراندازی ٗ ودیگرفنونِ حرب وضرب میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی… البتہ راستے میں چلتے چلتے انہیں یادآیاکہ اُمِ سُلیم تواب اپنامذہب تبدیل کرچکی ہے،مسلمان ہوچکی ہے…جبکہ میں آباؤاجدادکے دین پرہی قائم ہوں…لہٰذاکہیں ایسانہوکہ اس وجہ سے وہ اس رشتے کوٹھکرادے ،اورمیرے ساتھ شادی سے انکارکردے…لیکن جلدہی وہ یہ سوچ کرمطمئن ہوگئے کہ اُمِ سُلیم کے قبولِ اسلام کے بعدبھی اس کاشوہرتوبدستورپرانے